1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن، ’سیاسی فائدہ کسے ہو گا‘

رفعت سیعد، کراچی11 مارچ 2015

ایم کیوایم کے مرکز پر چھاپہ مارکارروائی کے دوران مقتول صحافی ولی خان بابر کے قتل پر سزائے موت کا مفرور ملزم فیصل موٹا سمیت چھ ٹارگٹ کلرز اور ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1EosP
تصویر: Reuters

رینجرز کے کرنل طاہر محمود نے کارروائی مکمل ہونے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ چھاپے میں بڑے پیمانے پر نیٹو فورسز کے چوری شدہ ہتھیار اور دیگر جنگی سامان بھی برآمد ہوا ہے۔ جس پر رینجرز کو شبہ ہے کہ سامان غیر قانونی طور پر ایم کیو ایم کے مرکز لایا گیا ہے۔ عامر خان کو حراست میں لینے کی وجہ سزا یافتہ مجرموں کی ایم کیو ایم کے مرکز پر موجودگی سے متعلق پوچھ گچھ بتائی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان سمیت درجنوں عہدیداروں اور کارکنوں کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔

میڈیا سے گفتگو کے دوران رینجرز ترجمان نے چھاپے کے دوران ایم کیو ایم کی جانب سے کسی بھی قسم کی مزاحمت نہ کئے جانے کی تصدیق کی مگر صورت حال آخری مراحل میں انتہائی خراب اس وقت ہوگئی، جب ایم کیو ایم کے مشتعل کارکن رینجرز اہلکاروں سے الجھ پڑے اور اسی دھکم پیل میں گولی چل گئی اور ایم کیو ایم کا ایک کارکن وقاص جان سے گیا۔

Faisal Mehmood, angeklagt für den Mord an dem Journalisten Wali Babar
قتول صحافی ولی خان بابر کے قتل پر سزائے موت کا مفرور ملزم فیصل موٹا بھی نائن زیرو سے گرفتار کیا گیا ہےتصویر: Sindh Rangers

ایم کیو ایم نے وقاص کے قتل کا الزام رینجرز پر عائد کیا اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنے ہنگامی خطاب میں گو کے رابطہ کمیٹی کو اس حوالے سے غیر ذمہ دار قرار دیا کہ انتہائی مطلوب افراد نائن زیرو پر کیا کررہے تھے مگر اس کے باوجود الطاف حسین نے وقاص کی موت کا الزام رینجرز پر عائد کرتے ہوئے اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی۔ لیکن رینجرز نے الزام کو یکسر مسترد کردیا ہے۔

ملک کی تیسری بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے مرکزی دفترنائن زیرو کا بدھ کو علی الصبح ہونے والی اس کاروائی میں نہ صرف ایم کیو ایم کے دفاتر بلکہ الطاف حسین کی ہمشیرہ سائرہ باجی اور رکن سندھ اسمبلی ہیر سوہو کے گھروں کی بھی تلاشی لی گئی اور کئی گھنٹے تک تمام علاقہ محاصرے میں ررکھا گیا۔ سورج طلوع ہوا تو خبر جنگ کی آگ کی طرح پھیلی اور ایم کیو ایم کی ایک اپیل پرتمام تعلیمی ادارے اور شہر بھر کے پیٹرول پمپ آنآ فانآ بند ہوئے۔ پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں پر سے چلتے چلتے غائب ہوگئی دیکھتے ہی دیکھتے زندگی سے بھرپور شہر خاموش ہو گیا اور شہر بھر سے ایم کیو ایم کے کارکن نائن زیرو پر جمع ہوگئے۔

چار گھنٹے کے انتظار کے بعد الطاف حسین کارکنوں سے مخاطب ہوئے لیکن انہوں نے اپنے خطاب کے دوران دبے الفاظ میں فوج اور کھلے الفاظ میں رینجرز کی مذمت کی۔ مگر الطاف حسین نے یہ بھی کہہ دیا کہ اب وہ صرف خدمت خلق فاونڈیشن کے معاملات دیکھیں گے اور ایم کیو ایم کو رابطہ کمیٹی چلائے۔ کیونکہ بعض افراد کو ان کی شکل پسند نہیں ہے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں ایک بار پھر قیادت سے دستبرداری کی یہ کوشش شاید اسی دباؤ کا نتیجہ ہے، جس کا سامنا کئی برسوں سے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو ہے۔

رابطہ کمیٹی لندن اور کراچی کے طویل مشترکہ اجلاس میں آئندہ کے لائحہ عمل پرغورکیا گیا۔ ادھررابطہ کمیٹی کے عامر خان سمیت ایم کیو ایم کے مختلف شعبہ جات کے اہم ذمہ دار رینجرز کی تحویل میں ہیں، جن کی تفصیلات جمعرات کوایک پریس کانفرنس میں پیش کی جائیں گی۔ ایم کیوایم مرکزسے حراست میں لیے گئے ایک درجن افراد کوچند گھنٹے بعد ہی رینجرز نے رہا کردیا مگرعامرخان کی طویل حراست سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ ایم کیو ایم نے لندن اور پاکستان کے مشترکہ اجلاس میں اپنا یوم سوگ جاری رکھنے کا اعلان کردیا ہے۔

ایم کیوایم مرکز پر رینجرچھاپے کے بعد نئی بحث چھڑگئی ہے۔ ایک طرف کارروائی کو جہاں ملک میں دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن سے جوڑا جارہا ہے وہیں دوسری طرف اس آپریشن کے خطرناک سیاسی مضمرات کے علاوہ خدشات بھی سامنے آگئے ہیں۔ ناقدین کے مطابق بلدیاتی انتخابات کا شیڈول آنے کے اچانک بعد شہری علاقوں کی نمائندہ جماعت کے خلاف آپریشن کے مضمرات بلدیاتی انتخابات کے لیے صف بندی پر پڑیں گے، یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کی حلیف جماعت پیپلزپارٹی نے محتاط الفاظ میں رینجرچھاپے پراپنی تشویش ظاہرکرکے آصف زرداری اوررحمان ملک نے ایم کیو ایم کی دلجوئی کی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق نیٹوکے چوری شدہ اسلحہ کی کراچی میں صرف ایم کیو ایم کے پاس ہی موجودگی ظاہرنہیں ہوئی بلکہ اس سے پہلے مختلف کالعدم تنظیموں اورمختلف سیاسی تنظیموں کے حمایت یافتہ مسلح گروپوں سے بھی نیٹواسلحہ برآمد ہوچکا ہے۔

پرویزمشرف اور پیپلزپارٹی کے علاوہ مختلف ادوارمیں ایم کیو ایم سمیت کئی جماعتوں نے سیلف ڈیفینس پالیسی کے تحت ممنوعہ بورکے اسلحہ لائسنس حاصل کیے ہیں۔ سندھ کے سابق وزیرداخلہ ڈاکٹرذوالفقار مرزا متعدد باریہ تفصیلات بیان کرچکے ہیں، سیلف ڈیفینس کوبنیاد بناتے ہوئے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے بھی سندھ میں لاکھوں اسلحہ لائسنس جاری کیے تھے۔

ان سب معاملات کے دوران جیل حکام نے سابق مینجنگ ڈائریکٹر شاہد حامد کے قتل میں سزائے پانے والے ایم کیو ایم کے کارکن صولت مرزا کے پھانسی کے لیے ایک بار پھر ڈیتھ وارنٹ حاصل کر لیے ہیں۔ پاکستان میں سزائے موت کی سزا پر عملدرآمد پر عائد پابندی ختم ہونے کے بعد بھی صولت مرزا کے ڈیٹھ وارنٹ جاری کیے گئے تھے مگر وفاقی وزارت داخلہ نے ان پر عملدرآمد روک دیا تھا۔

سندھ کے آئی جی جیل خانہ جات نصرت منگھن کہتے ہیں کہ صولت مرزا کو مچھ جیل میں انیس مارچ کو پھانسی دی جائے گی کیونکہ کراچی میں جیل پر حملے کے خطرات کے باعث ہی صولت مرزا سمیت کئی خطرناک دہشت گردوں کو ملک کی دیگر جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈیتھ وارنٹ مچھ جیل انتظامیہ کو ارسال بھی کردیے گئے ہیں۔

ایم کیو ایم کے خلاف حالیہ آپریشن کے محرکات کچھ بھی ہوں تجزیہ کاراس آپریشن کوایم کیو ایم کے لیے سیاسی طور پر سود مند قراردے رہے ہیں۔ تجزیہ کارکہتے ہیں کہ ماضی میں جب بھی ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن ہوا، ایم کیوایم نے اس کا بھرپورسیاسی فائدہ اٹھایا اب جبکہ ایم کیو ایم میں دھڑے بندی کی باتیں زبان زد عام ہیں، تجزیہ کار حالیہ آپریشن کوایم کیو ایم کے اندرونی انتشارکی پردہ پوشی کے علاوہ سیاسی استحکام کے لیے بھی اہم قراردے رہے ہیں۔

Pakistan Politiker PPP Partei Zulfiqar Mirza
سندھ کے سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے سندھ میں لاکھوں اسلحہ لائسنس جاری کیے تھےتصویر: picture-alliance/dpa/R. Khan