1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پون چکیاں: 2011ء میں 50 ارب یورو سے زیادہ کی سرمایہ کاری

23 اپریل 2012

آج کل دُنیا بھر کی بجلی کی ضروریات کا تین فیصد ہوا سے حاصل ہونے والی توانائی سے پورا کیا جا رہا ہے۔ سن 2011ء میں پون چکیوں کے شعبے میں پچاس ارب یورو سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی گئی۔

https://p.dw.com/p/14jY6
تصویر: Fuhrländer

وقت کے ساتھ ساتھ سستی بجلی کے حصول کا یہ طریقہ بالخصوص ایشیا اور یورپ میں اہمیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ براعظم افریقہ کے لیے بھی یہ طریقہ پُرکشش ثابت ہو سکتا ہے، تاہم وہاں اس شعبے کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔

اسپین اور ڈنمارک میں ابھی سے ملکی ضروریات کی بیس فیصد بجلی ہوا سے حاصل کی جا رہی ہے۔ جرمنی میں ابھی یہ شرح تقریباً دَس فیصد ہے تاہم پیشین گوئی کی جا رہی ہے کہ سن 2020ء تک جرمنی میں بھی پون چکیوں سے حاصل کی گئی بجلی کا تناسب بڑھ کر بیس تا پچیس فیصد ہو جائے گا۔

سستی بجلی کے حصول کا یہ طریقہ بتدریج مقبولیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے
سستی بجلی کے حصول کا یہ طریقہ بتدریج مقبولیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

تاہم دُنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں چین میں پون چکیوں کا شعبہ سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں نصف سے زائد نئی پون چکیاں چین ہی میں نصب کی جا رہی ہیں۔ اس شعبے میں چین نے امریکا اور جرمنی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اسی دوران چین کی پون چکیوں کی اپنی صنعت نے بھی تیزی سے ترقی کی ہے۔

پون چکیوں کی مقبولیت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اُن سے حاصل ہونے والی بجلی سستی پڑتی ہے، بڑی چکیوں سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت پانچ تا نو یورو فی کلو واٹ آور ہے۔ ورلڈ وِنڈ انرجی ایسوسی ایشن کے ناظم الامور اسٹیفان گزینگر کے مطابق یہ قیمت بہت پُر کشش ہے:’’اگر ہم قیمت پر نظر ڈالیں تو مَیں ابھی سے یہ کہوں گا کہ ہوا سے حاصل ہونے والی بجلی توانائی کا سستا ترین ذریعہ ہے اور ایٹمی توانائی اور معدنی وسائل سے پیدا شُدہ بجلی سے تو بہرطور سستی ہے۔‘‘

ورلڈ وِنڈ انرجی ایسوسی ایشن کی پیشین گو‌ئی ہے کہ 2020ء تک دُنیا بھر میں پون چکیوں سے بجلی کے حصول کی گنجائش چار گنا اضافے کے ساتھ بڑھ کر ایک ہزار گیگا واٹ تک پہنچ جائے گی۔ بجلی کی یہ مقدار تقریباً ایک ہزار بڑے بجلی گھروں سے حاصل ہونے والی بجلی کے برابر ہے۔

چین کی پون چکیاں بنانے کی اپنی صنعت بھی تیزی سے ترقی کر رہی ہے
چین کی پون چکیاں بنانے کی اپنی صنعت بھی تیزی سے ترقی کر رہی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

دُنیا کے دیگر خطّوں کے مقابلے میں بر اعظم افریقہ میں ابھی پون چکیوں کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگرچہ مصر، مراکش، تیونس، ایتھوپیا، نائجیریا اور جنوبی افریقہ میں بھی وِنڈ پارک قائم کیے گئے ہیں تاہم افریقہ میں ہوا سے جتنی زیادہ توانائی حاصل کی جا سکتی ہے، اُس کا عشرِ عشیر بھی حاصل نہیں کیا جا رہا۔

پون چکیوں کی تعمیر و ترقی کے لیے جرمنی کے اُس ماڈل سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے، جس کے تحت کسی قصبے کے تمام شہری مل کر اپنی مقامی پون چکیوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اس طرح بجلی کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی اُسی علاقے میں رہتی ہے۔ جرمن کاشتکار ہیرمن آلبرز اپنے علاقے میں گزشتہ بیس برسوں سے اس طرح کی پون چکیاں نصب کر رہا ہے۔ اُس نے بتایا:’’ہم نے واضح طور پر اس بات کا پتہ چلایا ہے کہ وِنڈ انرجی تبھی قابل قبول ہوتی ہے، جب شہری خود اُس میں پیسہ لگاتے ہیں اور بجلی پیدا کرنے کے عمل میں خود شریک ہوتے ہیں۔‘‘

شہریوں کی اپنی شرکت کے ساتھ قائم ہونے والے وِنڈ پارکس کو اس سال جولائی کے اوائل میں جرمن شہر بون میں مجوزہ ورلڈ وِنڈ انرجی کانفرنس میں بھی مرکزی اہمیت حاصل رہے گی۔ ’کمیونٹی پاور، سٹیزنز پاور‘ اِس کانفرنس کا مرکزی عنوان ہو گا۔

Gero Reuter/aa/hk

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید