1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں قابل تجدید توانائیوں سے استفادہ بڑھتا ہوا

7 مارچ 2012

گیارہ مارچ 2011ء کو فوکوشیما ایٹمی ری ایکٹر کو پیش آنے والے تباہ کن حادثے کے بعد جرمنی نے ایٹمی توانائی سے متعلق اپنی پالیسی میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کا اعلان کر دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/14GGf
تصویر: picture-alliance/dpa

اس اعلان کے نتیجے میں آٹھ ایٹمی بجلی گھر فوری طور پر بند کر دیے گئے، ایٹمی توانائی کو بتدریج ترک کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اب تک کے مقابلے میں زیادہ بھرپور انداز میں توانائی کے قابل تجدید ذرائع سے استفادہ کرنے کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔

جاپانی ساحلوں کے ساتھ واقع ایٹمی بجلی گھروں میں دھماکوں نے پوری دُنیا کے ساتھ ساتھ جرمنی کو بھی ہلا کر رکھ دیا تھا اور ہزارہا جرمن شہری ایٹمی توانائی کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی اِس حوالے سے اپنے سابقہ مؤقف میں تبدیلی لاتے ہوئے کہا تھا:’’مَیں ہمیشہ ایٹمی توانائی کی حامی رہی ہوں لیکن جاپان میں مجھے یہ دیکھنا پڑا کہ ایک انتہائی ترقی یافتہ ملک میں بھی ایک ایٹمی بجلی گھر کے لیے تمام تر پیشگی منصوبے اور حفاظتی اقدامات ناکافی ثابت ہوئے۔ اس کا نتیجہ کافی بڑی تباہی کی صورت میں برآمد ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ میرے خیال میں جرمنی میں بھی ہمیں اپنی سوچ بدلنا ہو گی اور کوشش کرنا ہو گی کہ ہم ایٹمی توانائی کے بغیر بھی اچھے اور دانشمندانہ طریقے سے بجلی حاصل کر سکیں۔‘‘

جرمن شہر ماربرگ میں شمسی توانائی کا ایک مرکز
جرمن شہر ماربرگ میں شمسی توانائی کا ایک مرکزتصویر: AP

جرمنی کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت کے ساتھ جون 2011ء کے آخری دنوں میں جرمن پارلیمان نے آٹھ پرانے ایٹمی بجلی گھروں کو فوری طور پر بند کرنے کی منظوری دے دی۔ باقی ماندہ نو ایٹمی بجلی گھروں کو سن 2022ء تک بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

جرمنی میں قابلِ تجدید ذرائع سے توانائی کے حصول کی کوششیں گزشتہ ایک عشرے سے بھی زائد عرصے سے جاری تھیں تاہم جاپانی ایٹمی ری ایکٹر کے حادثے کے بعد ان کوششوں میں بڑے پیمانے پر تیزی دیکھنے میں آئی۔ چنانچہ 2011ء کے آخر تک جرمنی میں بجلی کی مجموعی پیداوار میں قابل تجدید ذرائع کا حصہ 2010ء کے مقابلے میں تقریباً چار فیصد کے اضافے کے ساتھ بڑھ کر 21 فیصد تک پہنچ چکا تھا۔ اس میں سے سب سے زیادہ یعنی تقریباً آٹھ فیصد بجلی پون چکیوں سے جبکہ چھ فیصد بائیو گیس سے حاصل کی گئی۔ شمسی توانائی سے چلنے والے یونٹ چار فیصد بجلی کے ساتھ تقریباً پن بجلی کے برابر توانائی فراہم کر رہے ہیں۔

جرمنی میں تقریباً چار فیصد بجلی پانی سے حاصل کی جاتی ہے
جرمنی میں تقریباً چار فیصد بجلی پانی سے حاصل کی جاتی ہےتصویر: AP

تاہم توانائی کے قابل تجدید ذرائع سے استفادے کے شعبے میں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے جرمنی سے تعلق رکھنے والے سابق سربراہ کلاؤس ٹوئپفر توانائی کی نئی پالیسیوں کے سلسلے میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے مشیر بھی ہیں۔ اُن کے خیال میں جرمنی درست راستے پر گامزن ہے لیکن زیادہ بہتر نتائج کے لیے زیادہ بھرپور کوششوں کی ضرورت ہو گی۔ وہ کہتے ہیں:’’مجھے خدشہ ہے کہ ہم وفاقی جمہوریہء جرمنی میں توانائی کی نئی پالیسیوں کو غیر پیشہ ورانہ طریقے سے عملی شکل دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں جلد از جلد پیشہ ورانہ منصوبہ بندی کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔‘‘

سن 2020ء تک حکومت ملکی ضروریات کی کم از کم 35 فیصد بجلی قابل تجدید ذرائع سے استفادہ کرتے ہوئے حاصل کرنا چاہتی ہے۔ تاہم جس تیزی کے ساتھ اس شعبے میں کام ہو رہا ہے، اُسے دیکھتے ہوئے پیشین گوئی کی جا رہی ہے کہ جرمنی میں بجلی کی مجموعی پیداوار میں متبادل ذرائع سے حاصل شُدہ بجلی کا تناسب تقریباً پچاس فیصد تک جا پہنچے گا۔

رپورٹ: گیرو روئٹر / امجد علی

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید