1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی پنجاب، سیلاب نے تباہی مچا دی

تنویر شہزاد، لاہور7 ستمبر 2014

پاکستانی صوبہٴ پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران 100 سے زائد افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ سینکڑوں دیہات زیرِ آب ہیں جبکہ سیلابی پانی نے ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی پر کھڑی فصلوں کو بھی تباہ کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1D8OM
مسلسل ہونے و الی شدید بارشوں کے سبب دیگر شہروں کی طرح لاہور میں بھی کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہو گیا ہے
مسلسل ہونے و الی شدید بارشوں کے سبب دیگر شہروں کی طرح لاہور میں بھی کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہو گیا ہےتصویر: Reuters/O.Saleem

سیلاب کی زد میں آنے والی سڑکیں اور پل بھی ٹوٹ چکے ہیں۔ بعض علاقوں میں سیلابی پانی شہروں میں داخل ہو چکا ہے جبکہ کچھ دوسرے علاقوں میں کئی دیہات کا شہروں سے رابطہ کٹ چکا ہے۔

سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں سیالکوٹ، نارووال، گوجرانوالہ، گجرات، منڈی بہاوالدین اور چینیوٹ شامل ہیں۔ پنجاب حکومت نے صوبے میں فلڈ ایمرجنسی نافذ کر دی ہے جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے متاثرہ علاقوں میں ضلعی انتظامیہ کو امدادی کارروائیاں تیز کرنے کی ہدایت کی ہے۔

اس وقت دریائے چناب میں غیر معمولی سیلابی کیفیت ہے جبکہ دریائے جہلم میں بھی اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ پنجاب کے چیف میٹریالوجسٹ محمد ریاض نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگلے چند دنوں میں پاکستان میں طویل اور بڑی بارشوں کا کوئی امکان نہیں ہے البتہ جنوبی پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں سیلابی پانی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔

بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں سینکڑوں مکانات اور وسیع تر زرعی رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں
بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں سینکڑوں مکانات اور وسیع تر زرعی رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیںتصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem

نارووال کی تحصیل ظفروال کے اسسٹنٹ کمشنر امتیاز گوندل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جموں و کشمیر کی پہاڑیوں سے بارشی پانی لے کر پنجاب میں داخل ہونے والے نالہ ڈیک میں پچھلے سڑسٹھ سالوں میں زیادہ سے زیادہ اٹھاون ہزار کیوسک پانی آیا تھا لیکن چند دن پہلے اس نالے سے یہاں پچھتر ہزار کیوسک پانی آیا ہے۔ ان کے بقول سیلاب کا نشانہ بننے والے علاقوں میں تحصیل لیول پر ایمرجنسی کے مقابلے کے لیے سہولتیں فراہم کی جانی چاہیں: "ہمارے پاس کلٹس گاڑی ہے یہ سیلاب زدہ علاقوں میں جا ہی نہیں سکتی"۔

پنجاب میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے متاثرہ علاقوں میں ایک سروے کا بھی آغاز کر دیا گیا ہے۔ اتوار کے روز پاکستان کے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ سیالکوٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اسلام آباد میں دھرنا دینے والی جماعتوں سے کہا کہ وہ دھرنا دینے کی بجائے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کام کریں۔

قادر آباد بیراج پر تعینات ایک ایکسین چوہدری لیاقت نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے اپنی طویل مدت ملازمت میں اتنا بڑا سیلابی ریلا نہیں دیکھا، ’ڈیڑھ لاکھ کیوسک تک نچلے درجے کا سیلاب ہوتا ہے، دو لاکھ تک درمیانے درجے کا، چار لاکھ تک اونچے درجے کا ، چھ لاکھ تک بہت اونچے درجے کا اور آٹھ لاکھ کیوسک تک غیر معمولی سیلاب ہوتا ہے لیکن ہم نے چند گھنٹے پہلے یہاں سے نو لاکھ کیوسک سے بھی زیادہ پانی گذرتے دیکھا‘۔

اب یہ سیلابی ریلا جنوبی پنجاب کی طرف بڑھ رہا ہے، جہاں دریاؤں کے کنارے آباد دیہات کو خالی کرانے اور دریاؤں کے پشتے مضبوط بنانے کا کام زور شور سے جاری ہے۔

اگرچہ فوج کے ہیلی کاپٹر امدادی کارروائیوں میں مصروفِ عمل ہیں تاہم ابھی بھی بہت سے علاقے ایسے ہیں، جہاں کوئی مدد نہیں پہنچ پا رہی ہے
اگرچہ فوج کے ہیلی کاپٹر امدادی کارروائیوں میں مصروفِ عمل ہیں تاہم ابھی بھی بہت سے علاقے ایسے ہیں، جہاں کوئی مدد نہیں پہنچ پا رہی ہےتصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem

اگرچہ پاکستانی فوج، پنجاب حکومت، پنجاب پولیس، پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور ریسکیو سروس ون ون ٹوٹو سمیت کئی سرکاری ادارے ہزاروں افراد کو محفوظ مقامات پر پہنچانے کے دعوے کر رہے ہیں لیکن متاثرہ علاقوں میں اب بھی بہت سے لوگ سیلاب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ طالب والا ضلع چینوٹ کے امتیاز نامی ایک رہائشی نے بتایا کہ ان کے علاقے میں ہر طرف پانی ہی پانی ہے، ان کو نہ تو فلڈ کی پیشگی اطلاع مل سکی ہے، بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ سے ٹی وی بھی نہیں چل رہے تھے، اس کے علاوہ کوئی سرکاری اہلکار وہاں نہیں پہنچا ہے اور وہ اپنے مدد آپ کے تحت یہ علاقہ خالی کروا رہے ہیں۔

سیال موڑ کے قریب عباس نگر کے ایک رہائشی عمران نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کے ان کے علاقے میں دھان کی فصل مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہے۔

ڈسکہ شہر میں موجود وہاں کے رکن پنجاب اسمبلی محمد آصف باجوہ نے بتایا کہ ڈسکہ شہر میں سیوریج کے ناکارہ ہونے کی وجہ سے شہر پانی سے بھر گیا تھا، اب شہباز شریف نے یہ مئسلہ حل کرانے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ ان کے بقول ڈسکہ شہر کے باہر بھی ہر طرف پانی ہی پانی نظر آ رہا ہے۔

ریسکیو سروس ون ون ٹوٹو کے پنجاب کے ڈی جی ڈاکٹر رضوان نصیر نے بتایا کہ اب تک صوبے میں ایک سو تین سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد تین سو سے اوپر ہے۔

ادھر لاہور شہر کے نشیبی علاقوں سے ابھی تک پانی نہیں نکالا جا سکا ہے، کئی علاقوں میں متاثرہ لوگ کھانا اور ادویات نہ ملنے کی شکایات کر رہے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں