1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: متنازعہ سائبر کرائمز بل رکوانے کی کوششیں

شکور رحیم، اسلام آباد17 اپریل 2015

پاکستان میں آزادی اظہار کے لیے سرگرم کارکنوں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ شخصیات نے سائبر جرائم کے خلاف ایک مجوزہ مسودہ قانون کی پارلیمانی منظوری رکوانے کے لیے حزب اختلاف کے منتخب اراکین سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FA5X
تصویر: picture-alliance/dpa

اسلام آبا دمیں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے جمعرات سولہ اپریل کو ’الیکٹرانک کرائمز بل 2015‘ نامی ایک ایسے مسودہ قانون کی منظوری دے دی تھی جسے ماہرین متنازعہ قرار دے رہے ہیں۔ اس قانونی مسودے کو حتمی منظوری کے لیے اب وفاقی پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔

اس بل کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے ’بلڈوز‘ کر کے یہ بل پارلیمان سے منظور کرانے کی کوشش کی تو اسے ملکی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا جائے گا۔

دوسری جانب پاکستانی وزارت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے حکام کے مطابق ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ملکی تاریخ میں سائبر جرائم کو روکنے کے لیے مؤثر قانون سازی تجویز کی گئی ہے۔ آئی ٹی کی وفاقی وزارت کے ترجمان صدیق وٹو کے مطابق سائبرکرائمز کے خلاف بل دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے۔

Pakistan Parlament Nationalversammlung in Islamabad
پارلیمانی کمیٹی میں منظوری کے بعد اب یہ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گاتصویر: AP

ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے صدیق وٹو نے کہا، ’’پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل فونز اور آئی ٹی کے دیگر ذرائع کا استعمال بہت بڑھ چکا ہے اور اس کو روکنے کے لیے ملک میں اب تک کوئی مؤثر قانون موجود نہیں۔ اسی لیے یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ اس شعبے میں جامع قانون سازی کی جائے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس مجوزہ قانون کے خلاف شور مچانے والوں نے اسے صحیح طریقے سے پڑھا ہی نہیں ہے۔

دہشت گردی کی وارداتیں روکنے کے لیے الیکٹرانک جرائم کے انسداد کے مجوزہ بل میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعے کیے جانے والے جرائم کی روک تھام پرسزاؤں کا تعین کیا گیا ہے۔ اس مجوزہ قانون کے تحت پاکستان ٹیلی کمیو نیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سکیورٹی اور دفاع کے منافی مواد کی روک تھام کی پابند ہو گی۔

مجوزہ قانون کے تحت عام شہریوں کی پرائیویسی میں دخل اندازی، ہیکنگ، سوشل نیٹ ورکس کے ذریعے کسی بھی قسم کا استحصال، انفارمیشن انفراسٹرکچر پر سائبر حملے، سائبر دہشت گردی، مجرمانہ رسائی، فحش پیغامات، ای میلز، دھمکی آمیز پیغامات اور ای میلز، کسی بھی ڈیٹا بینک تک غیرقانونی رسائی وغیرہ سب عمل قابل سزا ہوں گے۔

اس مجوزہ قانون کے خلاف سوشل میڈیا پر اظہار رائے کی حمایت کرنے والے سرگرم کارکنوں اور آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ شخصیات نے ایک مشترکہ ایکشن کمیٹی بھی بنا رکھی ہے۔ انٹرنیٹ کی آزادی کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہےکہ اس قانون کا اصل مقصد سوشل میڈیا پر ہونے والی سیاسی تنقید کا راستہ بند کرنا ہے۔

Symbolbild Soziale Netze
مجوزہ بل کے خلاف سوشل میڈیا پر احتجاجی آوازیں سننے میں آ رہی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/Heimken

انٹرنیٹ کی آزادی کے لیے فعال ایک تنظیم ’بولو بھی‘ کی ڈائریکٹر فریحہ عزیز کا کہنا کہ حکومت نے اس بل کی تیاری میں عجلت سے کام لیتے ہوئے متعلقہ فریقین کو مشارتی عمل میں شامل نہیں کیا۔ انہوں نے کہا، ’’اس قانون کے تحت سیاسی مزاح یا تنقید بھی جرم تصور ہو گی۔ آزادی اظہار پر ایسی قدغن کی کوئی بھی کوشش جمہوری کہلانے والی حکومت پر دھبہ ہوگی۔‘‘

مشترکہ کمیٹی کے ایک اور رکن اور انٹرنیٹ سروسز فراہم کرنے والی نجی کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم کے صدر وہاج السراج کا کہنا ہے کہ اس بل کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کی جماعتوں کے منتخب ارکان سے رابطے بھی کیے جا رہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’یہ ایک ایسا قانون ہے جس کے منفی سماجی اثرات تو ہیں ہی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کا عمومی کاروبار پر بھی بہت برا اثر پڑے گا۔ اس وقت انٹرنیٹ کے ذریعے مارکیٹنگ کا رجحان انتہائی مقبول ہے لیکن اس نئے بل کے تحت اگر کسی صارف کو کسی پروڈکٹ کے بارے میں ای میل بھیجی جائے اور وہ اس کے خلاف شکایت کر دے تو ایسی ای میل بھیجنے والے کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا جا سکے گا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ پر کیے جانے والے جرائم کے خلاف قانون سازی ضرور ہونی چاہیے لیکن حکومت کو اس عمل میں متعلقہ شعبے اور اس کے نمائندوں کی شرکت بھی یقینی بنانا چاہیے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید