1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ناروے یوتھ کیمپ حملے میں زندہ بچنے والے درجنوں افراد انتخابی امیدوار

عصمت جبیں10 جولائی 2013

ناروے میں قریب دو سال قبل بائیس جولائی کو ایک جزیرے پر حملے میں زندہ بچ جانے والے کم از کم 27 افراد نو ستمبر کو ہونے والے پارلیمانی الیکشن کے لیے امیدوار ہیں۔

https://p.dw.com/p/1959C
تصویر: Reuters

یہ حملہ سن 2011ء میں ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے نواح میں لیبر پارٹی کہلانے والی سیاسی جماعت کے ایک یوتھ کیمپ کے شرکاء پر کیا گیا تھا۔ شدید عوامی غم و غصے کا باعث بننے والا یہ حملہ دائیں بازو کی سوچ کے حامل ناروے ہی کے ایک شہری آندرس بیہرنگ بریوک نے کیا تھا۔ اس خونریز واقعے میں بیسیوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

Kommunalwahlen in Norwegen Jens Stoltenberg
ناروے کے موجودہ وزیر اعظم ژینس اسٹولٹن برگ صرف 32 سال کی عمر میں ملکی پارلیمان کے رکن منتخب کر لیے گئے تھےتصویر: AP

ان دنوں اوسلو میں جولائی کی دھوپ میں ویگارڈ گروئسلی وینیس لینڈ Vegard Groeslie Wennesland

نامی ایک 29 سالہ نوجوان عام شہریوں کو گلاب کے پھول پیش کرتا اور معمول کی شاپنگ کرتے شہریوں سے سیاست پر بات چیت کرتا نظر آتا ہے۔ وہ ملکی لیبر پارٹی کے اس یوتھ کیمپ میں شامل تھا، جس پر یوٹویا کے جزیرے پر حملہ کیا گیا تھا۔

وینیس لینڈ کے علاوہ اس حملے میں یوتھ کیمپ کے بہت سے دیگر شرکاء بھی زندہ بچ گئے تھے۔ ان نوجوانوں میں سے اب ستائیس نوجوان سیاستدانوں کے طور پر ستمبر میں ہونے والے اگلے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان انتخابی امیدواروں میں وینیس لینڈ بھی شامل ہے۔

دو سال قبل جب آندرس بریوک نے لیبر پارٹی کے یوتھ کیمپ پر خود کار ہتھیاروں سے اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے 69 افراد کو ہلاک کر دیا تھا، تو وینیس لینڈ اور اس کے کئی دیگر ساتھیوں نے خود کو لکڑی کے ایک کیبن میں بند کر کے یا بستر کے نیچے چھپ کر اپنی جانیں بچائی تھیں۔

Urteil gegen Breivik in Oslo
آندرس بریوک نے لیبر پارٹی کے یوتھ کیمپ پر خود کار ہتھیاروں سے اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے 69 افراد کو ہلاک کر دیا تھاتصویر: Reuters

اس حملے سے پہلے ملزم بریوک نے اوسلو شہر کے وسطی حصے میں وزیر اعظم کے دفتر کی عمارت کے باہر ایک کار بم بھی نصب کر دیا تھا۔ اس بم کے پھٹنے سے بھی آٹھ افراد مارے گئے تھے۔ اس طرح بریوک کم از کم 77 افراد کی موت کی وجہ بنا تھا۔

اب وینیس لینڈ اپنی عوامی رابطہ مہم کے دوران ناروے کے ووٹروں سے یہ کہتا دکھائی دیتا ہے، ’کسی نے مجھے اس وجہ سے قتل کرنے کی کوشش کی کہ میں کن باتوں پر یقین رکھتا ہوں۔ میری جدوجہد اسی کوشش کے خلاف مزاحمت ہے‘۔

وینیس لینڈ کا کہنا ہے، عام طور پر سمجھا یہ جاتا ہے کہ ہم ہر حال میں آزادانہ طور پر سیاست کر سکتے ہیں۔ ایسا سمجھنا غلط ہے۔ ہمیں اس کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہنا ہو گی‘۔

ناروے میں ستمبر میں ہونے والے عام الیکشن دو سال پہلے کے اس حملے کے بعد ملک میں ہونے والے پہلے پارلیمانی انتخابات ہیں۔ لیکن ناروے میں نوجوانوں کو آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کے لیے جتنی بڑی تعداد میں ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں، وہ کسی کے لیے حیرانی کا سبب نہیں ہونے چاہیئں۔ شمالی یورپ کے دوسرے ملکوں کی طرح ناروے میں بھی یہ دیرینہ روایت پائی جاتی ہے کہ وہاں نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں سیاست میں آگے لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

Erna Solberg, Norwegen
وزیر اعظم کے طور پر ژینس اسٹولٹن برگ کی ممکنہ جانشین اَیرنا سول برگ ہو سکتی ہیںتصویر: Foto: ap

ناروے کے موجودہ وزیر اعظم ژینس اسٹولٹن برگ صرف 32 سال کی عمر میں ملکی پارلیمان کے رکن منتخب کر لیے گئے تھے۔ وزیر اعظم کے طور پر ان کی ممکنہ جانشین اَیرنا سول برگ ہو سکتی ہیں۔ ان کا تعلق قدامت پسندوں کی پارٹی سے ہے اور وہ صرف اٹھائیس سال کی عمر میں قومی پارلیمان کی رکن بن گئی تھیں۔

لیبر پارٹی نے یوٹویا کے جزیرے پر حملے میں زندہ بچ جانے والے جن ستائیس نوجوانوں کو انتخابی ٹکٹ جاری کیے ہیں، ان کی خاص بات یہ ہے کہ وہ سب کے سب اپنے نظریات کے دفاع کے لیے جدوجہد کے قائل ہیں۔

ناروے میں ایسے سیاستدانوں کو ‘بائیس جولائی کے واقعات والی نسل‘ کے سیاستدان قرار دیا جاتا ہے۔ اوسلو کی پارلیمان میں لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والی ایک رکن Gunn Karin Gjul کہتی ہیں، ‘بائیس جولائی والی نسل کے افراد لیبر پارٹی میں ایک بڑی منفرد نسل سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن ہیں۔ ان کے نظریات اتنے امتحانوں سے گزرے ہیں جتنے کہ ناروے میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک کسی بھی نسل کے سیاسی نظریات نہیں گزرے‘۔