1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آزاد کرو یا سزائے موت دے دو، بریوک

19 اپریل 2012

ناورے میں گزشتہ برس 77 افراد کو دہشت گردی کے دو واقعات میں ہلاک کرنے کا اعتراف کرنے والے ملزم آندرس بیہرنگ بریوک نے عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ یا تو اسے رہا کر دیا جائے یا پھر سزائے موت دے دی جائے۔

https://p.dw.com/p/14gvC
تصویر: Reuters

بریوک نے قید کی سزا کو مضحکہ خیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ سزائے موت کو بحال کیا جائے۔ واضح رہے کہ ناورے میں آخری بار سزائے موت دوسری عالمی جنگ میں نازیوں کا ساتھ دینے والے مجرموں کی دی گئی تھی تاہم اب ناروے سمیت یورپ بھر میں سزائے موت پر پابندی عائد ہے۔

Norwegen Utøya Terror Angehörige der Opfer auf Utöya
وہ جزیرہ جہاں بریوک نے نوجوانوں کا قتل عام کیاتصویر: dapd

سماعت کے تیسرے روز استغاثہ نے بریوک سے ایسے حقائق اگلوانے کی پوری تگ و دو کی جن سے معلوم ہو سکے کہ آیا یورپ میں وہ مسلم مخالف گروہ موجود ہے، جس سے تعلق کا بریوک دعویٰ کرتا رہا ہے۔ بریوک نے استغاثہ کے دلائل کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ ایسا گروہ واقعی موجود ہے تاہم اس نے اعتراف کیا کہ اس نے گزشتہ برس 22 جولائی کو اوسلو میں بم دھماکے اور قریبی جزیرے پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے نوجوانوں کے کیمپ پر فائرنگ سے قبل اپنے 15 سو صفحات کے ’منشور‘ میں اس نیٹ ورک کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ اس نے بتایا کہ یہ گروپ دیگر عام تنظیموں کی طرح کوئی باقاعدہ منظم گروہ نہیں ہے کیونکہ اس کا کوئی قائد نہیں اور یہ کہ اس نیٹ ورک سے منسلک افراد انفرادی سطح پر کارروائیاں کرتے ہیں۔

بدھ کی کارروائی کے بعد وکلائے استغاثہ نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ ایسا کوئی گروہ یورپ میں موجود ہے۔ وکلاء کے مطابق بریوک کی یہ بات بھی تسلیم نہیں کی جا سکتی کہ اس نے اس گروہ کے اراکین سے لائبیریا، برطانیہ اور بالٹک ممالک میں ملاقاتیں کیں۔

ناروے میں زمانہ امن میں ہونے والے دہشت گردی کے اس سب سے خونریز واقعے میں ملوث بریوک کے بارے میں عدالت کو اب یہ طے کرنا ہے کہ آیا اسے 21 برس یا عمر قید کی سزا سنائی جائے یا اس کی ذہنی صحت کو دیکھتے ہوئے اسے پاگل خانے بھیجا جائے۔

عدالت بریوک کے بارے میں یہ بھی طے کر سکتی ہے کہ اگر وہ ذہنی طور پر درست حالت میں ہے، تو اسے اس وقت تک قید میں رکھا جائے، جب تک وہ معاشرے کے لیے کسی طرح کا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے اور اگر وہ ذہنی طور پر خراب حالت میں پایا گیا تو اسے اس وقت تک نفسیاتی ہسپتال میں رکھا جائے گا، جب تک یہ اطمینان نہ ہو جائے کہ اب اس کی دماغی حالت درست ہے۔

واضح رہے کہ یورپ میں صرف بیلا روس وہ واحد ملک ہے، جہاں اب بھی سزائے موت دی جاتی ہے۔ 1996ء میں یورپی کونسل کا رکن بننے کے بعد روس نے اس سزا کے خاتمے کے لیے مہلت مانگی تھی تاہم ابھی تک اس نے یہ سزا قانونی طور پر ختم نہیں کی۔ ناروے نے موت کی سزا سن 1905ء میں ختم کر دی تھی، تاہم دوسری عالمی جنگ کے بعد اس سزا کو دوبارہ بحال کیا گیا، جو پھر سن 1979ء تک قائم رہی۔

at/aa (Reuters, AFP)