1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی طرز کا سادہ چوبی واٹر فلٹر

Robin Hartmann / امجد علی27 مئی 2014

کیا لکڑی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا کروڑوں انسانوں کی زندگیاں بچا سکتا ہے؟ میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم ایک ایسے چوبی واٹر فلٹر پر کام کر رہی ہے، جس کی بدولت مستقبل قریب میں ایسا ممکن ہو سکے گا۔

https://p.dw.com/p/1C7fY
تصویر: DW/Fabian Schmidt

اس موضوع پر تحقیق کا آغاز چند سال پہلے اُس وقت ہوا، جب ایک مکینیکل انجینئر روہیت کارنک نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی ایک خصوصی کانفرنس کے موقع پر اتفاق سے اپنے بائیالوجسٹ دوستوں کی وہ گفتگو سن لی، جو وہ پودوں اور اُن کے اُس نظام کے بارے میں کر رہے تھے، جس کے ذریعے پانی جڑوں سے شاخوں تک پہنچتا ہے۔ کارنک نے سوچا کہ کیوں نہ پودے کے اندر موجود اسی نظام کی مدد سے پانی کا ایک سستا فلٹر بنانے کی کوشش کی جائے؟

لکڑی کے ایک عام سے ٹکڑے کی مدد سے واٹر فلٹر بنانے کا طریقہ
لکڑی کے ایک عام سے ٹکڑے کی مدد سے واٹر فلٹر بنانے کا طریقہتصویر: 2014 Boutilier et al.

پودوں میں پانی کی ترسیل کا نظام ایسی جھلّیوں پر مشتمل ہوتا ہے، جن کے مسام انتہائی باریک ہوتے ہیں، اتنے باریک کہ بعض دفعہ عام آنکھ سے نظر نہ آنے والے اور محض نینو میٹر سائز کے ذرّات بھی اُن میں اٹک جاتے ہیں اور آگے نہیں بڑھ پاتے۔ یہ قدرتی نظام پودوں کے اندرونی حصے میں ہوا کے بلبلے نہیں بننے دیتا۔ ایسے بلبلے پودے کے لیے بھی ویسے ہی خطرناک اور مہلک ثابت ہو سکتے ہیں، جیسے کہ انسانی جسم کے دورانِ خون میں۔ کارنک نے سوچا کہ اگر پودوں کا یہ نظام اتنا کارگر ہے تو پھر یہ ہوا کے بلبلوں کو ہی نہیں بلکہ بیکٹیریا وغیرہ کو بھی روک سکے گا اور یوں آلودہ پانی کو پھر سے پینے کے قابل بنا سکے گا۔

تب کارنک اور اُس کے ساتھی سائنسدانوں نے صنوبر کی لکڑی کے ایک ٹکڑے اور ایک پائپ کی مدد سے ایک سادہ سا فلٹر تیار کیا اور اُس پر تجربات شروع کر دیے۔ یہ ٹیم ایسی جھِلّیاں بنانے کی کوشش کر رہی ہے، جو پانی میں پائے جانے والے بیکٹیریاز کو آگے جانے سے روک دیں۔ سب سے پہلے اُنہوں نے سرخ رنگ والے پانی کو فلٹر میں سے گزارا اور درحقیقت جب پانی دوسرے سرے سے باہر آیا تو وہ بالکل بے رنگ اور صاف تھا جبکہ سرخ رنگ اندر جِھلّیوں کے ساتھ چپکا رہ گیا تھا۔

اس کے بعد یہی تجربات کولی بیکٹیریا کے ساتھ کیے گئے۔ کارنک کہتے ہیں: ’’ہمارے ابتدائی تجربات سے پتہ چلا کہ واقعی 99.99 فیصد بیکٹیریا کو اِس چوبی فلٹر نے آگے جانے سے روک دیا تھا۔‘‘ ایسا صرف ایک چوبی فلٹر بھی ایک دن میں پینے کا چار لیٹر صاف پانی تیار کر سکتا ہے۔

کولی بیکٹیریا، جو پیشاب کی نالی یا پھر آنتوں میں سوزش کا باعث بن سکتا ہے
کولی بیکٹیریا، جو پیشاب کی نالی یا پھر آنتوں میں سوزش کا باعث بن سکتا ہےتصویر: picture-alliance/OKAPIA KG, Germany

عالمی ادارہء صحت کے اندازوں کے مطابق آج کل ہر سال دنیا بھر میں 1.6 ملین انسان، جن کی نوّے فیصد تعداد بچوں پر مشتمل ہوتی ہے، ایسی بیماریوں کے نتیجے میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، جو آلودہ پانی کے استعمال کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ اب تک پانی کو پینے کے قابل بنانے کے جو روایتی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں، وہ یا تو بہت مہنگے ہیں، جیسے کہ کلورین کی آمیزش، بالائے بنفشی شعاعیں یا پھر کاربن فلٹر اور یا پھر اُن کے لیے بجلی کی ضرورت پڑتی ہے، جس کی غریب ملکوں میں ویسے ہی کمی ہے۔

تاہم چوبی فلٹر پر تجربات ابھی اُس سطح تک نہیں پہنچے کہ اسے پانی صاف کرنے کے روایتی طریقوں کی جگہ استعمال کیا جا سکے۔ آج کل کارنک اور اُن کے ساتھی لکڑی کی کئی دیگر اقسام پر تجربات کر رہے ہیں، جو صنوبر کی لکڑی سے بھی زیادہ مؤثر طور پر بیکٹیریا وغیرہ کو فلٹر کر سکتی ہوں۔ تاحال تجربات کے مطابق کچھ وائرس اتنے چھوٹے سائز کے ہوتے ہیں کہ یہ چوبی فلٹر انہیں نہیں روک پاتے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ حلقے اس چوبی فلٹر کو ناقدانہ نظروں سے دیکھتے ہیں۔ مثلاً کیلیفورنیا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے رابرٹ جیکسن کہتے ہیں کہ آلودہ پانی کے ایک قطرے میں بھی کئی ملین بیکٹیریا ہوتے ہیں، ایسے میں بیکٹیریا کو روکنے میں حاصل ہونے والی ننانوے فیصد کامیابی بھی کافی نہیں ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید