1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے آبِ امرت مہم

Kishwar Mustafa23 جولائی 2012

ابراہیم حیدری گاﺅں کے ماہی گیر پینے کے پانی سے محروم رہے ہیں۔ جو پانی یہاں میسر ہے وہ عالمی ادارہِ صحت کے تجویز کردہ میعار سے 20 گنا زیادہ مضرِ صحت ہے۔

https://p.dw.com/p/15dIV
تصویر: picture alliance / Photoshot

عالمی ادارے کے مطابق پینے کے پانی میں محلول ذرّات 300 سے 500 فی ملی لیٹر سے زیادہ نہیں ہونے چاہیے لیکن یہاں ملنے والے پانی میں6000 ذرّات فی ملی لیٹر تک پائے جاتے ہیں۔ اس پانی کو کئی لوگوں نے ناقابلِ استعمال قرار دے دیا تھا لیکن اس غریب علاقے کے نوجوان پچھلے چھ مہینے سے اپنے علاقے کے لوگوں کیلئے پانی صاف کرنے کا پلانٹ لگانے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ پانی کا ٹریٹمنٹ پلانٹ لگا کر اپنے علاقے میں اتنا صاف پانی فراہم کرسکیں گے جتنا کوئی منرل واٹر کمپنی کرتی ہے۔


ان کے ساتھ کام کرنے والی سماجی کارکن منیزہ احمد کا کہنا ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے یہ معلوم کیا کہ یہاں لوگ پانی کے حصول پر کتنا خرچہ کرتے ہیں۔ یہ پانی بھی جو ٹینکروں اور گدھا گاڑیوں پر لاد کر بیچا جاتا ہے، خاصہ گندا ہے۔ مگر لوگ اسی پانی کو استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
ابراہیم حیدری کراچی کا وہ علاقہ ہے جہاں زیرِ زمین پانی صرف سمندر کی قربت کی وجہ سے کھارا نہیں بلکہ چونکہ کراچی بھر کا فضلہ بھی یہیں سمندر میں گرتا ہے لہٰذہ پانی میں کئی قسم کے بیکٹیریا اور خطرناک امراض پھیلانے والے دوسرے ذرات بھی پائے جاتے ہیں۔ یہاں صورتحال اتنی بری ہے کہ جہاں شہر بھر کا یہ گندہ پانی گرتا ہے وہاں سمندر کا پانی باقاعدہ سرخ ہوجاتا ہے۔

Cholera in Simbabwe
پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی ہیضے اور دیگر بیماریوں کا سبب بنتی ہےتصویر: AP


منیزہ کہتی ہیں کہ یہاں کی غریب خواتین دور دراز علاقے سے پانی برتنوں میں بھر کر لاتی رہی ہیں اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ عمل بھی ان خواتین کی صحت کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ جو پانی وہ لاتی ہیں اس کے نتیجے میں بچوں میں بھی پیچش اور بدہضمی کے کیس بہت ملتے ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق ابراہیم حیدری کراچی کے ان تین علاقوں میں سے ایک ہے جہاں 5000 سے زائد بچے غربت اور پینے کا پانی صاف نہ ملنے کے باعث بینائی سے محرومی اور ذہنی معذوری جیسے امراض کا شکار رہے ہیں۔


علاقے کے رہائیشی اور اس مہم کے ایک کارکن سلطان محمود کا کہنا ہے کہ ان کا ارادہ ہے کہ آبِ امرت کے نام سے شروع کیے گئے اس منصوبے میں وہ زیرِ زمین پانی کو RO پلانٹ لگا کر صاف کریں گے۔ اس علاقے میں حکومت کی طرف سے ایک فلٹر پلانٹ موجود ہے لیکن چونکہ علاقے کے مکین اس سرکاری چیز کو اپنی نہیں سمجھتے لہٰذہ وہ پلانٹ کام بھی نہیں کرتا اور کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ سلطان محمود کا کہنا ہے کہ ان کی ایک کوشش یہ ہے کہ کسی طرح لوگ اس بات کو سمجھیں کے سرکاری املاک عوام کی ملکیت ہیں اور اگر اس حوالے سے کوئی مسئلہ سامنے آتا ہے تو لوگوں کو خود آگے بڑھ کر اس کا تدارک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
چھ مہینے کی کوشش کے بعد اب صورتحال اتنی بہتر تو ہوئی ہے کہ علاقے کے لوگ آبِ امرت مہم میں شامل تو ہوئے ہیں لیکن ابھی تک ان لوگوں کے پاس اتنا پیسہ جمع نہیں ہوسکا ہے کہ وہ اپنے اس منصوبے کو پائے تکمیل تک پہنچائیں۔ سلطان محمود کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اب تک کسی غیر سرکاری تنظیم سے مدد نہیں مانگ رہے تھے لیکن شاید اب انہیں کسی قسم کی مالی امداد مانگنے کی ضرورت پڑے۔ اب تک تو یہ منصوبہ غریب عوام کی اپنی ہمت پر چل رہا تھا لیکن اس سے پہلے کہ حوصلے جواب دے جائیں، اس منصوبے کے چلانے والے اتنی مدد حاصل کرنے کی امید ضرور رکھتے ہیں کہ یہاں بھی قریبی مخیر علاقے کے رہائشیوں کی طرح صاف پانی ملنے لگے۔ آخر پینے کا صاف پانی عیاشی نہیں ان کا حق ہے۔


رپورٹ: رفعت سعید کراچی

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں