1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طرابلس حکومت کی مبینہ جانبداری، چھ وزراء مستعفی

عاطف بلوچ28 اگست 2014

لیبیا کے چھ وزراء نے عبوری حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ متحارب ملیشیا گروپوں کے مابین جاری لڑائی میں جانبداری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ انہوں نے احتجاجی طور پر اپنے استعفے بھی دے دیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1D2tO
تصویر: Reuters

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے مقامی نیوز ایجنسی لانا کے حوالے سے بتایا ہے کہ صنعت، تجارت، تعلیم، پلاننگ، آبی وسائل اور زخمی افراد کے امور کے نگران وزراء نے وزیر اعظم عبداللہ الثینی کی عبوری حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ وزیر برائے صنعت سلیمان اللطیف کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یہ استعفے حکومت کی طرف سے ایک ملیشیا گروہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے احتجاجی طور پر دیے گئے ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ حکومت کس گروہ کا ساتھ دے رہی ہے۔ تفصیلات بتائے بغیر انہوں نے مزید کہا، ’’چھ وزراء کی کوشش تھی کہ وہ عبوری حکومت کا حصہ رہیں لیکن سربراہ حکومت نے ان کو اعتماد میں لیے بغیر فیصلے کیے۔‘‘

2011ء میں لیبیا کے سابق آمر معمر القذافی کی معزولی اور ہلاکت کے بعد اس شمالی افریقی ملک میں گزشتہ چند ماہ سے تشدد انتہائی شدت اختیار کر چکا ہے۔ حال ہی میں منتخب کی گئی نئی پارلیمنٹ کے مخالف اسلامی ملیشیا گروہ بالخصوص دارالحکومت طرابلس میں طاقت جمع کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے اس ملک کے مختلف علاقوں میں اقتدار کی رسہ کشی میں اضافہ ہو گیا ہے۔

Libyen Kämpfe am Flughafen
اس لڑائی میں طرابلس ایئر رپورٹ کو بھی شدید نقصان پہنچا ہےتصویر: Reuters

دوسری طرف نیو یارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کل بدھ کو ایک قرارداد کی منظوری دے دی، جس کے تحت لیبیا کے ایسے افراد کے خلاف اضافی پابندیاں عائد کر دی جائیں گی، جو وہاں کامیاب سیاسی اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بنیں گے۔ یہ امر اہم ہے کہ سلامتی کونسل تیل کی دولت سے مالا مال لیبیا کو اسلحے کی فروخت پر پابندیوں کی حامی بھر چکی ہے۔

بدھ کو سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر مطالبہ کیا کہ لیبیا میں متحارب گروپوں میں درمیان جاری لڑائی فوری طور پر روک دی جائے اور تمام طبقات مل کر اس کمزور ریاست کو کامیابی کے راستے پر ڈالنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔ اقوام متحدہ میں لیبیا کے سفیر ابراہیم الدباشی نے کونسل کو بتایا کہ لیبیا میں صورتحال انتہائی پیچیدہ ہو چکی ہے اور اگر احتیاط اور دانشمندی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو وہاں مکمل طور پر خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔

ابراہیم الدباشی نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں صورتحال اتنی خراب نہیں تھی اور انہوں نے کبھی بھی خانہ جنگی کا خطرہ ظاہر نہیں کیا تھا۔ لیکن اب وہاں صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلح گروپوں کے مابین بڑے پیمانے پر تصادم میں بھاری اسلحہ استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ مختلف جماعتوں میں دشمنی بڑھتی جا رہی ہے۔

اس موقع پر لیبیا کے لیے یو این مشن کے سبکدوش ہونے والے سربراہ طارق متری کا کہنا تھا کہ لیبیا میں جاری حالیہ جھڑپیں اپنی شدت کے حوالے سے غیر معمولی نوعیت کی ہیں، جس کی وجہ سے ایک لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ مزید ڈیڑھ لاکھ دیگر ممالک کو ہجرت پر مجبور ہو چکے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ لیبیا کا سیاسی بحران حل کرنے کے لیے بیرونی طاقتیں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتیں۔ تاہم انہوں نے ایسی خبروں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ گزشتہ ہفتوں کے دوران متحدہ عرب امارات اور مصر نے لیبیا میں اسلام پسند ملیشیا گروہوں کے خلاف فضائی کارروائی کی۔ متری کا اصرار تھا کہ کوئی بھی بیرونی مداخلت لیبیا کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہو گی۔

طرابلس اور بن غازی میں مسلح گروہوں کے مابین خونریز جھڑپوں کے نتیجے میں متعدد ممالک نے وہاں سے اپنے سفارتی عملے اور شہریوں کو واپس بلا لیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں