1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کمانڈروں کی رہائی: افغان دیہات میں خوف و ہراس

کشور مصطفیٰ 6 جون 2014

افغانستان اور امریکا کے درمیان حال ہی میں ہونے والی قیدیوں کی رہائی سے متعلق ڈیل افغانستان کے شمالی دیہات، جیسے کہ دیہ ساقی میں آباد افراد کی گہری تشویش اور ناراضگی کا سبب بنی ہے۔

https://p.dw.com/p/1CDlP
تصویر: REUTERS/Al-Emara

قطر کی ثالثی میں طے پانے والی ایک ڈرامائی ڈیل کے تحت افغانستان کے طالبان عسکریت پسندوں نے پانچ برس سے اپنے زیر حراست ایک امریکی فوجی سارجنٹ بو بیرگڈال کو رہا کر دیا۔ اس فوجی کے بدلے امریکا نے گوانتانامو کے حراستی کیمپ سے پانچ طالبان قیدیوں کو آزاد کر دیا۔ گوانتانامو سے رہا ہونے والوں میں ملا محمد فضل اور چار دیگر سینیئر طالبان کمانڈر شامل ہیں۔

ان طالبان باغیوں پر افغانستان کے شمالی میدانی علاقوں میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری کی منصوبہ سازی کے الزامات عائد ہیں۔ 1999ء میں ان طالبان عناصر نے اس علاقے میں بڑے پیمانے پر پرُتشدد کارروائیوں کے دوران متعدد مکانوں کو نذر آتش کر دیا تھا، تب سرسری سماعت کے بعد سزائے موت دینے کا رواج بھی عام تھا۔ اس علاقے کے دیہات کے مکینوں کے اذہان پر اُن خوفناک واقعات کے نقوش اب بھی گہرے ہیں۔ ان افراد کے اندر اُس دور کے طالبان رہنماؤں کے خلاف انتقام کا جذبہ بھڑک رہا ہے۔

ملا محمد فضل اور اُس کے ساتھیوں کی گوانتانامو سے رہائی کی خبر پر گہری تشویش اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے محمد عارف نامی ایک شخص کا کہنا تھا، "امریکا امن کے دشمنوں اور افغانستان کے دشمنوں کو کیوں رہا کر رہا ہے؟"

USA Guantanamo Gefangerner in Handschellen
ان طالبان باغیوں پر افغانستان کے شمالی میدانی علاقوں میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری کی منصوبہ سازی کے الزامات عائد ہیں۔تصویر: AP

محمد عارف تب طالبان کی خونریز کارروائیوں کے خوف سے اپنے خاندان کے تقریباً 18 اراکین کے ساتھ افغانستان سے فرار ہو کر پاکستان کے شمالی شہر پشاور آ گیا تھا اور 2001ء میں اُس وقت واپس وطن لوٹا جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کر کے طالبان حکومت کا خاتمہ کر دیا۔

ایک 53 سالہ افغان کسان طالبان باغیوں کے ہاتھوں ظلم و ستم اور غارت گری کا شکار ہونے کی اذیت ناک یادوں کو اب تک بھلا نہیں پایا ہے۔ اُس کے بقول، ’طالبان صرف قتل اور زخمی کرنا اور لوٹ مار جانتے ہیں، انہیں صرف اور صرف تباہی اور بربادی آتی ہے"۔

افغانستان میں سرگرم ایک آزاد تنظیم، "افغانستان جسٹس پروجیکٹ" نے ایسے دستاویزی شواہد جمع کیے ہیں، جن کا تعلق مُلا محمد فضل سے بنتا ہے۔ اس تنظیم نے ملا محمد فضل کی بطور طالبان آرمی چیف شناخت کی ہے، اس کا نام مظالم کی ایک خوفناک کیٹیلاگ میں شامل ہے۔

تفصیلی شہادتوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 1999ء میں ملا محمد فضل نے افغانستان کے شمالی میدانی علاقے میں مرحوم احمد شاہ مسعود کی سربراہی میں سرگرم شمالی اتحادی فورسز کے خلاف وسیع پیمانے پر قتل وغارت گری کی کارروائیوں کی قیادت کی تھی۔

دیہ ساقی کے رہنے والوں کو طالبان کے مظالم کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ طالبان کی طرف سے لاکھوں باشندوں کو جبری طور پر علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ کئی کئی دن تک یہ نہتے باشندے شہتوت کے پتوں پر گزارا کرتے رہے تھے۔

واشنگٹن میں قائم ’ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز‘ کے جنوبی ایشیائی شعبے سے منسلک ایسوسی ایٹ مشائیل کوگلمن کہتے ہیں، "جن پانچ طالبان قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے، وہ بدترین قماش کے عسکریت پسند ہیں"۔ اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے کوگلمن نے مزید کہا کہ، "یہ طالبان ایک واضح اور موجود خطرے سے کم نہیں"۔

رہا ہونے والا ایک اور طالبان کمانڈر نور اللہ نوری ہے، جس پر 1998ء میں افغانستان کے شمالی صوبے بلخ میں ہزاروں شیعہ مسلمانوں کے قتل عام کا الزام عائد ہے۔ تب وہ بلخ کا گورنر تھا۔