1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل پر ری پبلکن پارٹی کا سخت رد عمل

عاطف بلوچ2 جون 2014

افغان طالبان کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے لیے کی جانے والی ڈیل پر امريکا کی اپوزیشن پارٹی کے علاوہ کابل حکومت نے بھی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CAHN
تصویر: picture alliance/AP Photo

امریکی اپوزیشن جماعت ری پبلکن پارٹی نے خبردار کیا ہے کہ پانچ خطرناک قیدیوں کی رہائی سے امریکی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ سینیٹر جان مککین کے مطابق جن افغان قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے، وہ انتہائی ’خطرناک افراد‘ ہیں۔ متعدد دیگر ری پبلکن سیاستدانوں نے بھی اس ڈیل پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح واشنگٹن نے دہشت گردوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی ایک مثال قائم کر دی ہے۔

افغان طالبان کی قید میں امریکی فوجی سارجنٹ بووی بیرگڈاہل کی رہائی کے بدلے میں واشنگٹن نے طالبان کے پانچ اعلیٰ رہنماؤں کو آزاد کر دیا ہے۔ دوسری طرف کابل حکومت نے بھی اس ڈیل پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان قیدیوں کو قطر کے حوالے کرنا دراصل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ری پبلکن اور کابل حکومت نے ایسے خدشات کا اظہار بھی کیا ہے کہ رہا کیے جانے والے افغان طالبان کے ساتھی ایک مرتبہ پھر میدان جنگ کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔

US-Verteidigungsminister Chuck Hagel in Bagram, Afghanistan
امریکی وزیر دفاع چک ہیگل افغانستان میںتصویر: Reuters

تاہم افغانستان کا اچانک دورہ کرنے والے امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے اس تناظر میں ہونے والی تمام تر تنقید کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سارجنٹ بووی بیرگڈاہل کی زندگی کو شدید خطرات لاحق تھے اور ان کی رہائی کے لیے کی جانے والی کوششوں میں مزید تاخیر نہیں کی جا سکتی تھی۔

چک ہیگل نے اپوزیشن پارٹی کی تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نے دہشت گردوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ جیسا میں نے پہلے کہا تھا کہ سارجنٹ بووی بیرگڈاہل ایک جنگی قیدی تھا اور اپنے قيدی واپس لینے کا یہ ایک معمول کا طریقہ ہے۔‘‘

دوسری طرف ناقدین نے یہ بھی کہا ہے کہ افغان طالبان اور امریکا کے مابین اعتماد سازی کی فضا قائم کرنے کے لیے قیدیوں کے تبادلے کی یہ ڈیل ایک اہم پیشرفت ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج کا انخلاء 2014ء کے اواخر تک مکمل ہو جائے گا اور ملکی سکیورٹی کی تمام تر ذمہ داریاں افغان فورسز کو سونپ دی جائیں گی۔ اس مخصوص صورتحال میں نیٹو اور امریکا کی کوشش ہے کہ کسی طرح اس شورش زدہ ملک میں طالبان کو معاشرے کے بنیادی دھارے میں لاتے ہوئے پائیدار قیام امن کی داغ بیل ڈالی جا سکے۔

اسی تناظر میں امریکی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ یہ ڈیل افغان طالبان اور امریکا کے مابین براہ راست امن مذاکرات کی راہ استوار کر سکتی ہے، ’’ایسا امکان ہے کہ اس ڈیل کے تحت ایک نیا آغاز ممکن ہو سکے۔‘‘

ادھر افغان طالبان کے رہنما ملا محمد عمر نے ایک امریکی فوجی کے بدلے اپنے پانچ ساتھیوں کی رہائی کو ایک بڑی فتح قرار دیا ہے۔ طالبان نے ہفتے کے دن امریکی فوجی سارجنٹ بووی بیرگ ڈہل کو رہا کر دیا تھا۔ ملا عمر نے قیدیوں کے اس تبادلے پر کہا کہ وہ افغان مسلم قوم کو اس پیش رفت پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتے ہیں۔