1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’شُکر ہے میرا بچہ اس ظالمانہ سزا سے بچ گیا‘

کشور مصطفیٰ19 مارچ 2015

چَودہ برس کی عمر میں جرم کرنے والے شفقت حسین کی سزائے موت پر عملدرآمد کو آخری لمحوں میں مؤخر کر دیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایسا غیر معینہ مدت کے لیے کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Et61
تصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum

جمعرات 19 مارچ کی صبح تختہ دار پر پہنچنے کے لیے شفقت حسین کو تیار کر دیا گیا تھا۔ اس کے خاندان کے مطابق اُسے سفید لباس پہنا دیا گیا اور اُس سے اپنی وصیت لکھنے کو بھی کہہ دیا گیا تھا۔ بعد ازاں اُس کی پھانسی پر عملدرآمد کو مؤخر کردیا گیا۔

پاکستانی ڈان اخبار کے مطابق شفقت حسین کی سزائے موت کو تین سال کے لیے مؤخر کیا گیا ہے۔ شفقت کی ماں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’ہم ساری رات جاگتے رہے، خدا سے اپنے بچے کی زندگی کی بھیک مانگتے رہے، ہمیں کوئی امید نہیں تھی کہ ہم اپنے بیٹے کو کبھی دوبارہ زندہ شکل میں دیکھیں گے مگر پروردگار کا احسان ہے کہ اُس نے میرے چھوٹے بچے کو اس ظالمانہ سزا سے بچا لیا۔‘‘

شفقت حسین کے بھائی گُل زمان کا کہنا ہے کہ وہ اُس وقت شفقت کے پاس موجود تھا جب اُسے سولی پر چڑھانے کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ گُل زمان نے اپنے بیان میں کہا، ’’انہوں نے میرے بھائی کو سفید یونیفارم پہنایا پھر انہوں نے شفقت سے وصیت نامہ لکھنے کو کہا۔‘‘ گل زمان کے مطابق شفقت نے اپنی وصیت میں تحریرکیا، ’’میں بے قصور ہوں یہ مجھے ایک ایسے جرم کی سزا میں پھانسی دینا چاہتے ہیں جو میں نے نہیں کیا۔ یہ اُن مجرموں کو بچانے کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں جنہیں بری کیا جا چُکا ہے۔‘‘

Pakistan Protest Shafqat Hussain Hinrichtung
ہیومن رائٹس گروپوں اور پاکستان کے مختلق حلقوں کی طرف سے شفقت حسین کی سزائے موت کے خلاف سخت احتجاج سامنے آیا ہےتصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

شفقت حسین کے وکلاء کا کہنا ہے کہ 2004 ء میں جب شفقت محض 14 سال کا تھا اُس وقت اقرار جرم کروانے کے لیے اُسے اذیتیں دی گئیں۔ اُسے سگریٹ سے جلایا گیا اور اُس کے ناخن کھینچ لیے گئے اور اُسے زبردستی ایک بچے کے قتل کا اقبال جُرم کرنے پر مجبور کیا گیا۔ شفقت حسین کی پھانسی رکوانے کے لیے ہیومن رائٹس گروپوں کی طرف سے پر زور مہم چلائی گئی اور شفقت حسین کے گھر والوں نے بھی حکام سے رحم کی پُر زور اپیل کی۔

پاکستانی قانون کے مطابق اگر جرم کے وقت مجرم کی عمر 18 سال سے کم ہو، تو اُسے سزائے موت نہیں دی جا سکتی۔ اس کے علاوہ جبری طور پر اور اذیت دے کر اقرار جرم کروانا بھی ناقابل قبول ہے۔

شفقت حسین کے گھر والوں نے بُدھ کو حکومت سے اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ کمزور اور ناقص نظام انصاف کےتحت شفقت سے اقرار جرم کروانے کے لیے اُسے مہینوں اذیت دی گئی۔

ہیومن رائٹس گروپوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ پاکستان میں سزا دہی کا طریقہ کار انتہائی غیر معتبر اور ناقابل بھروسہ ہے کیونکہ اس ملک میں ملزم کے ساتھ اذیت رسانی عام ہے اور زیادہ تر پولیس اہلکار غیر تربیت یافتہ ہیں۔