میرا بیٹا مت چھینو، بزرگ ماں کی التجا
14 مارچ 2015امریکی خبر رساں ادارے اے پی نے بتایا ہے کہ شفاقت حسین کی ماں مکھنی بیگم نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ ان کے بیٹے کو سنائی جانے والی سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا جائے۔ پاکستانی زیرانتظام کشمیر میں سکونت پذیر اس بزرگ خاتون نے ٹیلی فون کے ذریعے اے پی کو بتایا کہ انہیں یقین ہے کہ شفاقت بے قصور ہے۔
مکھنی بیگم نے کہا، ’’میں حکومت سے درخواست کرتی ہوں، میں عدلیہ سے بھیک مانگتی ہوں کہ وہ میرے بیٹے کا مقدمہ دوبارہ چلانے کا حکم دے۔ خدارا میرے بیٹے کی زندگی بخش دو، میرے بیٹے کو مجھ سے مت چھینو۔‘‘
اس خاتون کے مطابق اس کا بیٹا شفقت کراچی میں بطور سیکورٹی گارڈ کام کرنے گیا تھا اور اچانک اسے پتہ چلا کہ اس قتل کے ایک مقدمے میں دھر لیا گیا ہے۔ شفاقت کے بھائی منظور نے الزام عائد کیا ہے کہ اقبال جرم کے لیے شفاقت کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
سن2004ء میں کراچی کی ایک عدالت نے ایک لڑکے کو قتل کرنے کے الزام میں شفقت کو سزائے موت سنائی تھی۔ عدالت کے سامنے اعتراف جرم کے بعد سنائی گئی اس سزا پر انسانی حقوق کے اداروں نے بھی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس لڑکے کو سزائے موت نہیں دی جانا چاہیے۔
سزائے موت کے منتظر مجرم کے بھائی منظور کے مطابق، ’’پولیس نے میرے بھائی کو انتہائی برے طریقے سے تشدد کا نشانہ بنایا اور اس سے اعتراف کرایا کہ وہ ایک لڑکے کے قتل اور اس کی لاش کو ٹھکانے لگانے کا جرم قبول کر لے۔‘‘ منظور کے اس الزام پر محکمہء پولیس کی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
منظور نے بتایا ہے کہ جیل کے حکام نے اسے بتایا ہے کہ وہ اپنے بھائی سے آخری ملاقات کر لے کیونکہ انیس مارچ کو اس کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ سیکورٹی خدشات کی وجہ سے منظور نے اپنا مکمل نام ظاہر نہیں کیا ہے۔
پاکستانی ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ شفقت کی سزائے موت پر عملدرآمد نہ کیا جائے کیونکہ جب اس سے جرم سرزد ہوا تھا تو وہ اس وقت کم سن تھا۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے دفتر سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق وزیر داخلہ نے جنوری میں کہا تھا کہ شفقت کے گھر والوں کی طرف سے ظاہر کیے جانے والے تحفظات کے تناظر میں انکوائری کی جائے گی تاہم اس حوالے سے کوئی انکوائری نہیں ہوئی ہے۔
پاکستان میں 2008ء میں سزائے موت کے عملدرآمد پر پابندی عائد کی گئی تھی لیکن پشاور آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردانہ حملے کے بعد جزوی طور پر اس پابندی کو ختم کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد رواں ماہ ہی اس پابندی کو مکمل طور پر اٹھا لیا گیا تھا۔