1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سونامی کے نو سال، خوفناک یادیں آج بھی تازہ

کشور مصطفیٰ26 دسمبر 2013

نو سال قبل 2004ء میں کرسمس کے دوسرے روز 26 دسمبر کو آنے والے سونامی طوفان نے متعدد ایشیائی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ انڈونیشی ساحلوں پر آنے والے اس طوفان کے باعث قریب دو لاکھ تیس ہزار انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔

https://p.dw.com/p/1Ah7X
تصویر: Nik Martin

نو سال قبل 2004ء میں کرسمس کے دوسرے روز 26 دسمبر کو آنے والے سونامی طوفان نے متعدد ایشیائی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ انڈونیشی ساحلوں پر آنے والے اس طوفان کے باعث قریب دو لاکھ تیس ہزار انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ انڈونیشی جزیرے سماٹرا میں سونامی کے نتیجے میں ایک لاکھ ستر ہزار افراد لقمہ اجل بنے تھے جبکہ آٹھ ہزار افراد تھائی لینڈ میں ہلاک ہوئے تھے۔

جمعرات چھبیس دسمبر کو اُس ناگہانی آفت کی لائی ہوئی تباہی اور سونامی کی بے رحم لہروں کے نتیجے میں لقمہ اجل بننے والوں کی یاد میں مختلف ایشیائی ممالک میں تقاریب کا انعقاد ہوا۔ انڈونیشیا میں قومی پرچم تین روز کے لیے سرنگوں کر دیا گیا جبکہ بھارت اور تھائی لینڈ میں بھی سوگواری تقاریب کا انعقاد ہوا۔ سونامی میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین اور دوست احباب نے اپنے پیاروں کے لیے قرآن خوانی کی اور اُن کی روحوں کے ایصال ثواب کے لیے دعائیں کیں۔

پچاس سالہ مقمون آدم سونامی طوفان میں اپنے دو بچے اور اپنی بیوی کھو چُکا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ گرچہ اس المناک واقعے کو بیتے نَو برس ہو چُکے ہیں تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کہ یہ کل ہی کی بات ہو۔ بندے آچے کا صوبائی دارالحکومت Ulee Lheue ماہی گیری کا علاقہ ہے، وہاں 14 ہزار سے زائد سونامی متاثرین اجتماعی قبروں میں دفن ہیں۔

Tsunami 9 Jahre danach Thailand Phuket Gedenktag
تھائی لینڈ میں بھی سوگواری تقاریب کا انعقاد ہواتصویر: Nik Martin

تھائی لینڈ کے جنوبی ساحلی علاقے پھوکٹ جزیرے میں سونامی طوفان کی زد میں آکر کم از کم آٹھ ہزار افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، وہاں آج سوگواری تقریب منعقد ہوئی، جس میں درجنوں انسان شریک ہوئے۔ ان دعائیہ تقاریب کی قیادت بُدھ راہبوں، عیسائی پادریوں اور مقامی مسلم باشندوں کے ترجمانوں نے کی۔

ایک 55 سالہ امریکی بریڈ کینی اُن خوش قسمتوں میں سے ایک ہے، جو سونامی لہروں کی زد میں آنے سے بچ گیا۔ وہ کہتا ہے، "ہمارا ارادہ تھا کہ ہم ساحل پر جائیں، اور ہمیں دراصل اُس وقت وہیں ہونا تھا، خوش قسمتی سے میری 13 سالہ بیٹی نے دھوپ کے چشمے یا گوگلز کی فرمائش کر دی اور ہم وہ لینے چلے گئے۔ ہمیں وہاں دیر ہو گئی اور اس طرح ہماری جانیں بچ گئیں"۔ تاہم بریڈ کینی اور اُس کی بیٹی نے اُس صبح ساحل پر جس جوڑے کے ساتھ ملاقات طے کی تھی، اُس کی ایک 13 ماہ کی بیٹی سونامی کی لہروں کی نذر ہو گئی۔

سونامی طوفان کی زد میں آنے والوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق یورپی ممالک سے تھا، جو کرسمس کی تعطیلات منانے کی غرض سے انڈونیشی جزیروں کی طرف گئے ہوئے تھے۔ سونامی آفات میں کم از کم پانچ سو سویڈش سیاح بھی ہلاک ہوئے تھے۔ 67 سالہ Leif Persson کا ایک بیٹا اور بہو بھی سونامی طوفان میں ہلاک ہو گئے تھے۔ وہ بتاتا ہے اُسے کئی دنوں تک رات دن ٹیلی فون کے ذریعے پوچھتے رہنے کے باوجود اپنے بیٹے اور بہو کا کوئی اتا پتا نہیں مل رہا تھا۔ کئی دنوں کے بعد اُسے پتہ چلا کہ وہ دونوں ہلاک ہو گئے ہیں اور اُن کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں تاہم اُس کے پوتے کی ابھی بھی کوئی خبر نہیں ہے۔

Tsunami 9 Jahre danach Thailand Phuket Gedenktag
سماٹرا میں سونامی کے نتیجے میں ایک لاکھ ستر ہزار افراد لقمہ اجل بنے تھےتصویر: Nik Martin

جنوبی بھارت کے صوبے تامل ناڈو میں آج سونامی کے متاثرین کی یاد میں تقاریب کا انعقاد ہوا، جن میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ آل انڈیا ریڈیو کی خبروں کے مطابق سونامی لہروں نے بھارت کی پانچ ریاستوں کو متاثر کیا تھا، جن میں نو ہزار تین سو پچانوے افرد ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں سے آٹھ ہزار کا تعلق تامل ناڈو سے تھا۔

سونامی کا سانحہ چند مثبت معاشرتی تبدیلیوں کا سبب بھی بنا ہے۔ بیوہ ہو جانے والی بہت سی خواتین نے دوبارہ شادی کر لی اور مچھیروں نے اپنے بچوں کو تعلیم کے حصول کے لیے اسکول بھیجنا شروع کر دیا۔ انہیں اس امر کا اندازہ ہو گیا ہے کہ تعلیم حاصل کر کے اُن کے بچے کوئی دوسرا پیشہ اختیار کر سکتے ہیں اورعلم کی دولت کو طوفانی لہریں بہا کر نہیں لیے جا سکتیں۔