1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سول نافرمانی کی تحریک، سیاسی جماعتوں کا ردعمل

رفعت سعید، کراچی18 اگست 2014

ملک کی تین بڑی جماعتوں کی جانب سے عمران خان کی سول نافرمانی کی کال اور وزیراعظم سے مستعفی ہونے کے مطالبے کی مخالفت کی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1CwRH
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

اہم سیاسی جماعتوں کی طرف سے عمران خان کے مطالبات کی مخالفت حکومتی دفاع کے لیے مضبوط سہارا سمجھی جا رہی ہے۔ دوسری طرف مختلف ارکان پارلیمنٹ اسلام آباد بحران کے جلد انجام تک پہنچنے کے لیے پرامید ہوگئے ہیں۔

پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اورعوامی نیشنل پارٹی کے علاوہ خیبرپختونخوا حکومت میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعت اسلامی نے بھی سول نافرمانی کا مطالبہ مسترد کردیا ہے۔

تجزیہ کاروں نے چاربڑی جماعتوں کے اس فیصلے کو حکومتی ساکھ کے لیے مضبوط سہارا جبکہ تحریک انصاف اورعوامی تحریک کے غبارے سے ہوا نکال دینے کے مترادف قرار دیا ہے۔ معروف قانون دان اور پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ کپتان عمران خان دھرنے سے مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے کسی حد تک عمران کے مطالبات کودرست مگران کے طریقہ کار کو غلط قراردیا۔

ایم کیوایم کے رہنما حیدر عباس رضوی کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت احتجاج کے ماحول کو ٹھنڈا کرنے اورسیاسی درجہ حرارت کم کرنے میں کردار ادا کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ الٹی میٹم اوردھمکیوں سے صورتحال مشکل ہوگئی ہے تاہم ایم کیو ایم کے قائد کا پیغام طاہرالقادری تک پہنچا دیا گیا ہے۔ حیدرعباس رضوی کا سوال تھا کہ کیا عمران خان کی کال کے بعد کیا خیبرپختونخوا حکومت وفاق کوٹیکس دینا بند کردے گی؟

مسلم لیگ نون کی وزیر مملکت برائے صحت سائرہ افضل تارڑ کہتی ہیں کہ سول نافرمانی کی کال عمران خان کوخیبر پختونخوا حکومت چھوڑنے کے بعد دینی چاہیے تھی۔

وفاقی وزیر خزانہ اور مسلم لیگ نون کے اہم رہنما اسحق ڈار نے سول نافرمانی کی کال کوپاکستانی معیشت پرخود کش حملہ قراردیا۔ انہوں نے کہاکہ عوام نے عمران خان کی کال کو مسترد کردیا ہے۔

جماعت اسلامی نے بھی سول نافرمانی کا مطالبہ مسترد کردیا ہے
جماعت اسلامی نے بھی سول نافرمانی کا مطالبہ مسترد کردیا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے بدلتے بیانات اورطاہرالقادری کے تبدیل ہوتے الٹی میٹم کے بعد ناقدین کا کہنا ہے کہ دھرنوں کا وہ دبدبہ اور رعب باقی نہیں رہا جوآغاز پر تھا۔

مختلف سیاسی رہنماؤں نے سراج الحق، خورشیدشاہ، رحمان ملک اور سندھ اور پنجاب کے گورنرز کی بیک ڈور ڈپلومیسی کوبھی دھرنا پارٹیوں کودفاعی پوزیشن پر دھکیلنے اورحکومت کوکندھا فراہم کرنے میں کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔

مبصرین کہتے ہیں کہ عجمان میں آصف زرداری اور اسحاق ڈار کی ملاقات میں وزیراعظم کے لیے اعتماد کا ووٹ لینے کی تجویز نے نوازشریف حکومت پر منڈلانے والے خطرات کو ٹال دیا ہے اوراب سیاسی حلقے پر امید ہیں کہ انقلاب مارچ ہو یا آزادی مارچ جلد اپنے منطقی انجام کوپہنچنے کو ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید