1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’راکٹوں کا تبادلہ بحران میں شدت کا سبب بن رہا ہے‘

ناصر شروف/ کشور مصطفیٰ11 جولائی 2014

اسرائیل اور فلسطین کے مابین جاری جنگ پورے خطے کے لیے نہایت خطرناک ہوتی جا رہی ہے، مغربی دنیا کی مصالحت کی کوششیں بے اثر ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے ناصر شروف کا تبصرہ۔

https://p.dw.com/p/1CbK4
تصویر: picture-alliance/dpa

کون ہے جو قتل کر دیے جانے والے تین اسرائیلی لڑکوں اور زندہ جلا دیے جانے والے ایک فلسطینی نوجوان کے والدین کے احساسات اور دُکھ کو نہیں سمجھ سکتا؟ تاہم یہ نظریاتی طور پر اندھے انتہا پسندوں کی کارروائی کا مناسب جواب نہیں ہے۔ غزہ اور اسرائیلی شہروں پر حملے اور جوابی حملے کسی صورت متاثرین کے دکھ کو کم نہیں کر سکتے، بلکہ س طرح انسانوں کے درد و الم میں اضافہ ہوگا اور ساتھ ہی دونوں طرف پائی جانے والی نفرت میں بھی۔ مشرق وسطیٰ کے بحران میں شدت کا نتیجہ ایسے دُکھی والدین کی تعداد میں مزید اضافے کا سبب بنے گا جو اپنے ہلاک ہونے والے بچوں کا سوگ منائیں گے۔

راکٹ تحفظ فراہم نہیں کرسکتے

نہ تو فضائی نہ ہی زمینی حملے مقدس سرزمین کو امن اور تحفظ دے سکتے ہیں۔ اسرائیل 2009ء کے آغاز میں بھی ایک بار یہ کوشش کر چُکا ہے۔ تب اُس نے اپنا فوجی آپریشن ’’کاسٹ لَیڈ‘‘ شروع کیا تھا اور اُس کے فوجی غزہ پٹی میں داخل ہو گئے تھے۔ تاہم تل ابیب کے اس اقدام کی مخالفت میں بین الاقوامی دباؤ اتنا بڑھا کہ تین ہفتوں کے اندر اندر اُسے اپنی فوج واپس بلانا پڑی لیکن اس کے نتائج خوفناک تھے۔ 1500 فلسطینی مارے گئے تھے اور جس بڑے پیمانے پر تباہی آئی تھی اُس کا ازالہ آج تک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ اسرائیل نے 2009 ء اور 2012 ء میں جو فوجی آپریشن کیے تھے اُن میں جدید ترین اسلحہ اور عسکری نظام کے استعمال کے باوجود نہ تو مشرق وسطیٰ کا بحران ختم ہوا نہ ہی اسرائیل کی سلامتی میں کوئی اضافہ۔

Konflikt Nahost Israel 09.07.2014
اسرائیل 2009ء کے آغاز میں فوجی آپریشن ’’کاسٹ لَیڈ‘‘ کر چُکا ہےتصویر: Reuters

تمام خطے میں پائی جانے والی انتہا پسندی

بھلے وہ کسی بھی طرف سے فائر کیا گیا ہو، ہر ایک راکٹ کے گرنے سے تشدد کا جذبہ مزید بھڑک رہا ہے اور اس کا فائدہ خطے کی انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیموں کو پہنچ رہا ہے۔ خلافت کا اعلان کرنے والا جہادی گروپ آئی ایس آئی ایس خود کو پہلے ہی عرب انقلاب کا فاتح قرار دے چُکا ہے۔ اس طرح کے جہادی گروپ ہر جگہ موجود ہیں، عراق، شام، یمن، لیبیا، صومالیہ، مصر یہاں تک کہ غزہ سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر سینائی میں بھی۔ شدت پسند گروہ کا ایک عرصے سے غزہ میں اپنے ہم نظریہ انتہا پسندوں کے ساتھ قریبی تعلق ہے اور اس وقت وہ ایک دوسرے کی توقعات پر خوشی خوشی پورا اُتر رہے ہیں۔

Gazastreifen Gaza Israelischer Luftangriff 08.07.2014
غزہ پر متواتر راکٹ یرس رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

مغرب کی طرف سے لاچار اپیل

عالمی برادری کی طرف سے ہمیشہ کی طرح لاچار اپیل کی جا رہی ہے۔ امریکا اور یورپی یونین مسلسل مشرق وسطیٰ کے خطے کے بحران میں مزید اضافے اور شدت سے خبر دار کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ہم ہزاروں بار پہلے بھی سُن چُکے ہیں۔ اس وقت ضرورت ہے فیصلہ کُن اور فوری اقدامات کی۔ اب مغرب کو اس امر کا اداراک ہونا چاہیے کہ عراق اور شام کی غیر متوقع صورتحال اس امر سے خبر دار کر رہی ہے کہ اگر مشرق وسطیٰ کا یہ دیرینہ تنازعہ یعنی اسرائیل اور فلسطین کی جنگ کی آگ مزید بھڑکی تو پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے گی اور اس علاقے کے تمام انتہا پسندوں کو نظریاتی غذائیت فراہم کرے گی۔ حالات پر قابو پانے کا اورکوئی راستہ نظر نہیں آ رہا سوائے اس کے کہ اسرائیل اور فلسطین کو جلد سے جلد مذاکرات کی میز تک لایا جائے اور دونوں پر یکساں دباؤ ڈالا جائے۔