1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حلب پر بیرل بم حملے شامی فضائی فورسز نے کیے: اپوزیشن کا الزام

کشور مصطفیٰ16 دسمبر 2013

شامی فضائیہ پر آج پیر کو الزام عائد کیا گیا ہے کہ اُس نے شمالی شہر حلب پر ’دھماکہ خیز مواد سے بھرے بیرل بم گرائے ہیں۔ گزشتہ روز پیش آنے والے اس واقعے میں 76 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

https://p.dw.com/p/1AaRP
تصویر: Reuters

تاہم حزب اختلاف کی طرف سے دمشق حکومت پر لگائے جانے والے اس الزام کی کسی آزاد ذریعے سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ اُدھر آج اقوام متحدہ کی طرف سے سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئندہ برس یعنی 2014 ء میں مشرق وسطیٰ میں شامی پناہ گزینوں کی تعداد دوگنا ہونے کا امکان ہے۔

شام میں حزبِ اختلاف کے کارکنوں نے گزشتہ روز شمالی شہر حلب پر ’دھماکہ خیز مواد سے بھرے بیرل گرانے‘ کا الزام حکومتی فورسز پر عائد کیا ہے۔ برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ہلاک ہونے والے شامی شہریوں کی تعداد 76 ہو گئی ہے، جن میں 28 بچے بھی شامل ہیں۔ قبل ازیں اس ادارے نے کہا تھا کہ اس حملے کے نتیجے میں 14بچوں سمیت بائیس افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ آبزرویٹری کے ڈائریکٹر رامی عبدالرحمان کے بقول، ’’مارچ 2011ء سے شام میں جاری جنگ کے دوران انسانی جانوں کے ضیاع کے حوالے سے یہ بڑے ترین حملوں میں سے ایک ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ دھماکا خیز مواد سخور عرض الاحمر اور حیدریہ کے علاقے پر گرایا گیا۔ چند ذرائع کے مطابق اس حملے میں ایک اسکول بھی نشانہ بنا ہے۔ ماہرین کے مطابق بیرل بم کی دو اقسام ہیں ایک وہ جو گھروں میں تیار کیے جا سکتے ہیں جبکہ اس کی دوسری قسم کو فیکٹریوں میں تیار کیا جاتا ہے۔

Syrien Kinder Flüchtlinge 26.11.2013
خانہ جنگی کے شکار شامی بچے پناہ کی تلاش میںتصویر: picture-alliance/dpa

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے آبزرویٹری کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ شام کی فضائی فوج کے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بارودی مواد سے بھرے بیرل باغیوں کے قبضے والے علاقوں پر پھینکے گئے۔ اِس بمباری سے جہاں رہائشی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا وہاں کئی موٹر گاڑیاں بھی جل کر تباہ ہو گئیں۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق حکومتی فوج کی یہ کارروائی گزشتہ بدھ کے روز عدرا میں ہونے والی باغیوں کی کارروائی کا جواب تھا۔

دریں اثناء اقوام متحدہ کی طرف سے آج پیر کو شام اور اس کے ہمسایہ ممالک کے لیے ساڑھے چھ بلین ڈالر کی امداد کی اپیل کی گئی ہے۔ اس عالمی ادارے کے مطابق آئندہ سال یعنی 2014 ء میں 16 ملین انسانوں کو امداد کی ضرورت ہوگی۔ ان میں سے زیادہ تر شامی باشندے ہیں جو 33 ماہ سے جاری شام کی جنگ کے سبب گھر بار سے محروم ہو چُکے ہیں اور ہمسایہ ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو چُکے ہیں۔ ان پناہ گزینوں کو بھوک اور بے سرو سامانی کے علاوہ صحت کے گوناگوں مسائل کا سامنا ہے۔

Syrien Aleppo Gas Öl Geschäft Explosion Feuer Brand
33 مہینوں سے جاری جنگ نے شام کا بنیادی ڈھانچہ تباہ کر دیا ہےتصویر: Reuters

شام کی خانہ جنگی کے سبب بے گھر ہونے والے 52 بلین انسان اس وقت 17 ممالک پناہ لیے ہوئے ہیں اور بین الاقوامی امداد کے منتظر ہیں۔ ان کی امداد کے لیے کی جانے والی اپیل کے تحت کُل 12.9 بلین ڈالر کی امداد درکار ہے۔ آج جنیوا میں ڈونر ممالک کے ایک اجلاس کے دوران اقوام متحدہ کے ایمرجنسی ریلیف پروگرام کی رابطہ کار ویلری آموس نے کہا کہ 2014 ء میں اس کُل امدادی رقم کے نصف کی ضرورت درکار ہو گی۔ ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آموس نے کہا، ’’اب تک سال کے آغاز میں کی جانیوالی امداد کی اپیلوں میں سے یہ امدادی رقم کی سب سے بڑی اپیل ہے۔‘‘

اقوام متحدہ نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر شام کے لیے عراق سے امداد کی پہلی کھیپ گزشتہ روز، اتوار کو بذریعہ ہوائی جہاز روانہ کی تھی۔ اس ادارے کا کہنا ہے کہ مزید غذائی امداد اور سردیوں کے لیے ضروری امدادی اشیاء آئندہ 12 دنوں میں خاص طور سے شام کے کردوں کی اکثریت والے شمال مشرقی علاقے کے لیے بھیجی جائیں گی۔