بھوک کم ہو رہی ہے، عالمی ادارہء خواک
10 اکتوبر 2012اس طرح فصلوں کے نقصان، قحط سالی اور اَشیائے خوراک کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باوجود بھوک کا سامنا کرنے والوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ عالمی ادارہء خوراک FAO کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں بھوک کے شکار افراد کی تعداد 870 ملین ہے۔ اس طرح اس تعداد میں سن 1990ء کے بعد سے تاحال اندازوں کے مقابلے میں زیادہ بڑے پیمانے پر کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ تاہم ایف اے او کے ڈائریکٹر جنرل José Graziano da Silva کے خیال میں یہ تعداد پھر بھی ’ناقابل قبول حد تک زیادہ‘ ہے۔
FAO کے سربراہ نے کہا:’’ہر آٹھ میں سے ایک انسان کو بھوک کا سامنا ہے۔ اور یہ حالات ایک ایسی دنیا میں ہیں، جہاں دیکھا جائے تو خوراک کافی مقدار میں موجود ہے۔ یہ صورت حال ناقابل قبول ہے۔ ہمارے لیے عالمی ادارہء خوراک کے طور پر بھوک کے شکار انسانوں کی واحد قابل قبول تعداد صفر ہے۔‘‘
گزشتہ برسوں کے دوران یہ عالمی ادارہ مسلسل یہ بتاتا رہا ہے کہ دنیا میں ایک ارب انسانوں کو بھوک کا سامنا ہے۔ اب یہ ادارہ اپنے اعداد و شمار کو جانچنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ یہ تعداد اُس کے اب تک کے اندازوں سے کچھ کم ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ سن 2000ء میں طے کیے جانے والے بھوک کے شکار انسانوں کی تعداد میں نصف کمی کے ہزاریہ ہدف کے حصول کی منزل بھی پہلی مرتبہ کچھ قریب آتی معلوم ہوتی ہے۔
FAO میں ترقیاتی پالیسیوں کے شعبے کے سربراہ Keith Wiebe کہتے ہیں:’’یہ ایک اچھی خبر ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مثبت پیشرفت ہو رہی ہے، ایشیا اور بالخصوص جنوب مشرقی ایشیا میں یا پھر لاطینی امریکا میں بھی۔ اگر ہم مزید کوشش کریں، معیشت ترقی کرے اور سماجی تحفظ کے نظام مؤثر طور پر کام کرنے لگیں تو ہمارے پاس اپنے اہداف حاصل کرنے کے اچھے مواقع موجود ہیں۔‘‘
دنیا کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں صحارا سے جنوب کی طرف واقع افریقی ممالک میں بھوک کے شکار انسانوں کی تعداد میں گزشتہ چند برسوں کے دوران مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ عالمی منڈی میں گندم، سویا اور چاول کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی ہیں، جو اپنی تمام آمدنی کو خوراک پر خرچ کرنے پر مجبور غریب ترین انسانوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہیں۔
اس صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ یورپ اور شمالی امریکا کے کاشتکاروں کو ہوا ہے۔ ترقی پذیر ملکوں کے کسان گھاٹے میں رہے، جنہیں کھاد یا قرضوں کی صورت میں وہ سہولتیں حاصل نہیں تھیں، جو ان ترقی یافتہ خطّوں کے کسانوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ چنانچہ عالمی ادارہء خوراک اب دنیا کے غریب علاقوں کے کاشتکاروں کے لیے بھی زیادہ سے زیادہ سہولتوں کا مطالبہ کر رہا ہے۔
T.Kleinjung/aa/ng