1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھوک کم ہو رہی ہے، عالمی ادارہء خواک

10 اکتوبر 2012

عالمی ادارہء خوراک نے منگل نو اکتوبر کو بتایا کہ دنیا بھر میں بھوک کے شکار انسانوں کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے، پھر بھی 870 ملین افراد (12.5 فیصد عالمی آبادی) کے پاس کافی مقدار میں خوراک نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/16NDu
North Korean school children have lunch at a nursery in Pochon county, in Ryanggang province in North Korea, 03 April 2002, that includes fortified blended foods supplied by the UN World Food Programme. North Korea, a country of 23 million people, has depended on international food aid in recent years after a series of floods, droughts and harsh winters. dpa
Welthungerhilfe Nordkoreaتصویر: picture-alliance/dpa

اس طرح فصلوں کے نقصان، قحط سالی اور اَشیائے خوراک کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باوجود بھوک کا سامنا کرنے والوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ عالمی ادارہء خوراک FAO کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں بھوک کے شکار افراد کی تعداد 870 ملین ہے۔ اس طرح اس تعداد میں سن 1990ء کے بعد سے تاحال اندازوں کے مقابلے میں زیادہ بڑے پیمانے پر کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ تاہم ایف اے او کے ڈائریکٹر جنرل José Graziano da Silva کے خیال میں یہ تعداد پھر بھی ’ناقابل قبول حد تک زیادہ‘ ہے۔

FAO کے سربراہ نے کہا:’’ہر آٹھ میں سے ایک انسان کو بھوک کا سامنا ہے۔ اور یہ حالات ایک ایسی دنیا میں ہیں، جہاں دیکھا جائے تو خوراک کافی مقدار میں موجود ہے۔ یہ صورت حال ناقابل قبول ہے۔ ہمارے لیے عالمی ادارہء خوراک کے طور پر بھوک کے شکار انسانوں کی واحد قابل قبول تعداد صفر ہے۔‘‘

صحارا سے جنوب کی طرف واقع افریقی ممالک میں بھوک کے شکار انسانوں کی تعداد میں گزشتہ چند برسوں کے دوران مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
صحارا سے جنوب کی طرف واقع افریقی ممالک میں بھوک کے شکار انسانوں کی تعداد میں گزشتہ چند برسوں کے دوران مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہےتصویر: dapd

گزشتہ برسوں کے دوران یہ عالمی ادارہ مسلسل یہ بتاتا رہا ہے کہ دنیا میں ایک ارب انسانوں کو بھوک کا سامنا ہے۔ اب یہ ادارہ اپنے اعداد و شمار کو جانچنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ یہ تعداد اُس کے اب تک کے اندازوں سے کچھ کم ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ سن 2000ء میں طے کیے جانے والے بھوک کے شکار انسانوں کی تعداد میں نصف کمی کے ہزاریہ ہدف کے حصول کی منزل بھی پہلی مرتبہ کچھ قریب آتی معلوم ہوتی ہے۔

FAO میں ترقیاتی پالیسیوں کے شعبے کے سربراہ Keith Wiebe کہتے ہیں:’’یہ ایک اچھی خبر ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مثبت پیشرفت ہو رہی ہے، ایشیا اور بالخصوص جنوب مشرقی ایشیا میں یا پھر لاطینی امریکا میں بھی۔ اگر ہم مزید کوشش کریں، معیشت ترقی کرے اور سماجی تحفظ کے نظام مؤثر طور پر کام کرنے لگیں تو ہمارے پاس اپنے اہداف حاصل کرنے کے اچھے مواقع موجود ہیں۔‘‘

عالمی ادارہء خوراک کے ڈائریکٹر جنرل Jose Graziano da Silva
عالمی ادارہء خوراک کے ڈائریکٹر جنرل Jose Graziano da Silvaتصویر: dapd

دنیا کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں صحارا سے جنوب کی طرف واقع افریقی ممالک میں بھوک کے شکار انسانوں کی تعداد میں گزشتہ چند برسوں کے دوران مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ عالمی منڈی میں گندم، سویا اور چاول کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی ہیں، جو اپنی تمام آمدنی کو خوراک پر خرچ کرنے پر مجبور غریب ترین انسانوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہیں۔

اس صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ یورپ اور شمالی امریکا کے کاشتکاروں کو ہوا ہے۔ ترقی پذیر ملکوں کے کسان گھاٹے میں رہے، جنہیں کھاد یا قرضوں کی صورت میں وہ سہولتیں حاصل نہیں تھیں، جو ان ترقی یافتہ خطّوں کے کسانوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ چنانچہ عالمی ادارہء خوراک اب دنیا کے غریب علاقوں کے کاشتکاروں کے لیے بھی زیادہ سے زیادہ سہولتوں کا مطالبہ کر رہا ہے۔

T.Kleinjung/aa/ng