1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں کئی ملین ٹن زرعی اجناس کا ضیاع

2 جولائی 2012

غربت اور بھوک کے شکار بھارت میں ہر روز قریب تین ہزار بچے کم خوراکی اور اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں اور دوسری جانب زرعی اجناس کے ضیاع کا عمل بھی جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/15Pdw
تصویر: AP

نئی دہلی سے خبر ایجنسی روئٹرز نے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ناکافی خوراک کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے ہاتھوں بھارت میں ہر مہینے جتنے بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، ان کی تعداد تقریبا نوے ہزار بنتی ہے۔ لیکن ایک اور انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارت کے شمال میں ہر سال گندم اور چاول کی ایسی بہت زیادہ پیداوار گلنے سڑنے کے لیے چھوڑ دی جاتی ہے جسے چوہے اور دوسرے جانور آلودہ کر دیتے ہیں۔

Cancun Klimakonferenz 2010
رواں برس کے دوران ملک میں جو زرعی اجناس بد انتظامی کی وجہ سے ضائع ہو جائیں گی ان کا حجم چھ ملین ٹن ہو سکتا ہےتصویر: AP

روئٹرز کے مطابق یہ صورت حال ایک غیر معمولی تضاد کا پتہ دیتی ہے۔ ایک طرف بھارت میں کسانوں کے لیے مالی مراعات کا نظام ہے تو دوسری طرف ملک میں غلہ ذخیرہ کرنے کے انتظامات تکلیف دہ حد تک کم ہیں۔ اس کے علاوہ عوام میں اشیائے خوراک کی تقسیم کے نظام میں بے تحاشا بدعنوانی بھی پائی جاتی ہے۔ یوں لاکھوں انسان اس طرح غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کہ انہیں پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا۔

یہ بات نئی دہلی میں کانگریس پارٹی کی قیادت میں کام کرنے والی مرکزی حکومت کے لیے بڑی شرمندگی کا باعث بن رہی ہے۔ یہ حکومت 2009ء میں عوام کے ساتھ ان وعدوں کے نتیجے میں دوبارہ اقتدار میں آئی تھی کہ وہ غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے انتھک کوششیں کرے گی۔ نئی دہلی میں موجودہ حکومت کے لیے اس وعدے پر عملدرآمد اس لیے بہت ضروری ہے کہ بھارت کی ایک ارب 20 کروڑ کی مجموعی آبادی میں غریب شہریوں کا تناسب تقریبا 40 فیصد بنتا ہے۔

Ernte in Indien
بھارت میں ہرسال گندم اور چاول کی ایسی بہت زیادہ پیداوار گلنے سڑنے کے لیے چھوڑ دی جاتی ہے جسے چوہے اور دوسرے جانور آلودہ کر دیتے ہیںتصویر: AP

بھارت میں بہت سے عام شہری یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ملک میں زرعی پیداوار کے جو بے شمار انبار کھلی جگہوں پر دھوپ اور بارش میں گلنے کے لیے چھوڑ دیے گئے ہیں، وہ اگر غریب شہریوں میں تقسیم کر دیے جاتے تو ان کی بھوک ختم ہو سکتی تھی۔ ماہرین کے بقول اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بھارت میں وہ سرکاری نظام اور ضابطے بہت پیچیدہ ہیں جن کے تحت حکومتی ادارے کسانوں سے زرعی اجناس خریدتے ہیں اور پھر انہیں غریب شہریوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔

بھارتی اپوزیشن کی ایک جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے نیشنل سیکرٹری ڈی راجہ کہتے ہیں کہ یہ صورت حال حکومت کی طرف سے مجرمانہ غفلت کا ثبوت ہے۔ ان کا کہنا ہے، ‘بھارت میں موجودہ حکمران جماعت نے زرعی پیداوار کی خریداری اور عوام میں تقسیم کے حوالے سے ڈیمانڈ اور سپلائی کے نظام کو بہتر انداز میں استوار کرنے کے حوالے سے انتہائی ناقص منتظم کا ثبوت دیا ہے۔‘

Armut Indien Obdachlose Männer
بھارت کی ایک ارب 20 کروڑ کی مجموعی آبادی میں غریب شہریوں کا تناسب تقریبا 40 فیصد بنتا ہےتصویر: AP

بھارتی بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ امکاناً رواں برس کے دوران ملک میں جو زرعی اجناس بد انتظامی کی وجہ سے ضائع ہو جائیں گی ان کا حجم چھ ملین ٹن ہو سکتا ہے اور اس کی مالیت کم از کم 1.5 بلین امریکی ڈالر کے برابر ہو گی۔ اس کے برعکس اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ضائع ہو جانے والی یہ زرعی پیداوار ان حکومتی اندازوں سے کہیں زیادہ ہو گی کیونکہ اس وقت جو زرعی اجناس اندازہً ضائع ہونے کے قریب ہے اس کا حجم انیس ملین ٹن کے قریب ہے اور یہ کھلے عام چھوڑ دی گئی ہے۔

بھارتی ریاست مشرقی پنجاب کے ایک گاؤں سدوماجرا میں ایک فٹ بال جتنے میدان میں ذخیرہ کی گئی لاکھوں ٹن گندم گزشتہ پانچ سال سے ضائع ہو رہی ہے۔ اس ذخیرے پر ڈالا گیا ترپال کئی جگہوں سے پھٹ چکا ہے اور بوریوں میں گندم خراب ہو رہی ہے۔ اس ذخیرے کے نگران حَکم سنگھ کے مطابق یہ گودام پانچ سال قبل بنایا گیا تھا۔ ایسا ہی ایک اور گودام سکھوں کے مقدس شہر امرتسر کے نواح میں واقع ہے۔

ij/ah/Reuters