1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچوں میں ایڈز کے پھیلنے کا خطرہ

دانش بابر، پشاور3 مئی 2014

پاکستان میں ایک طرف اس بیماری میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف تشویش کی بات اس مرض میں مبتلا بچے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1BtDD
تصویر: DW/D. Baber

ایڈز ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسان کے اندر موجود مدافعتی نظام مکمل طورپر تباہ ہوجاتاہے اور قوت مدافعت کی کمی کے باعث انسان مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتاہے۔ جس کی وجہ سے اکثر مریضوں کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ ایڈز کی روک تھام کے لئے سرگرم ایک سرکاری ادارے میں کام کرنے والے سینیئر ڈاکٹر راج ولی کا کہنا ہے کہ دسمبر 2013 ء تک پاکستان میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ایڈز میں مبتلا افراد کی تعداد 83468 تھی جس میں 7568 وہ لوگ ہیں جو پورے پاکستان میں مختلف علاقوں میں واقع اٹھارہ سرکاری مراکز میں اندراج شدہ ہیں جس میں ستر بچے بھی شامل ہیں۔ لیکن دوسری طرف اس شعبے میں کام کرنے والے غیر سرکاری اداروں کے مطابق پاکستان میںHIV میں مبتلا افراد کی تعداد 98ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے، جس میں کمسن اور ان بچوں کی تعداد بھی کافی بتائی جاتی ہے جن کی عمریں اٹھارہ سال سے کم ہیں، ان میں زیادہ تر تعداد اسٹریٹ چلڈرن کی ہے۔

ان بچوں میں اس وائرس کی منتقلی کے بارے میں خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے ڈاکٹر امجد کا کہنا ہے کہ بچوں کا اس بیماری میں مبتلا ہونا یقیناً تشویش کی بات ہے، ابھی تک ان کے درست اعداد وشمار کا پتہ نہیں ہے لیکن ایک یہ بات طے ہے کہ روز بروز ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں۔

AIDS Kampagne in Pakistan
پاکستان میں ایڈز کے خلاف مہمتصویر: DW/D. Baber

”HIV کی بہت سی وجوہات ہیں، جیسا کہ مغربی ممالک میں ہم جنس پرستی بہت زیادہ ہے لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے یہاں نشہ کرنے والوں میں یہ زیادہ عام ہے کیونکہ یہ لوگ غریب ہیں اور ایک ہی سیرنج یا سوئی کو کئی نوجوان اور بچے باربار نشہ آور ادویات خون میں پہنچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو اس طرح سے یہ بیماری ایک سے دوسرے میں منتقل ہوجاتی ہے۔“

ایڈز میں مبتلا سولہ سالہ کاشف(فرضی نام) کا کہنا ہے کہ اسے بالکل پتا نہیں تھا کہ اُس کو یہ بیماری لاحق ہے، وہ ہر وقت بخار میں مبتلا رہتا تھا، جب اس کے ٹیسٹ کئے گئے تو اسے بتایا گیا کہ اس کو ایڈز کی بیماری ہے اور وہ کہتا ہے کہ یہ سب کچھ نشے کے ٹیکوں کی وجہ سے ہوا ہے۔

اس قسم کے کمسن بچوں کے بارے میں ڈاکٹر شائستہ کا کہنا ہے کہ ملک میں ان کی تعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف خیبر پختون خوا میں گزشتہ دو سالوں میں ان کی تعداد 25 تھی جبکہ رواں سال اب تک ان کی تعداد آٹھ ہے، جس میں سال کے آخر تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ ان بچوں کے علاج کے بارے میں ڈاکٹر شائستہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” جتنا ایک بالغ فرد کو اے آر ویز (Antiretroviral) تک رسائی حاصل ہے اتنا ہی ان کو بھی اے آر وی ادویات تک رسائی دی جائے، تاکہ وہ ان کو استعمال کر سکیں اور اپنی زندگیاں بچاسکیں، اور ان کے خاندان کے افراد کو بھی یہ بتایا جائے کہ وہ ان کے ساتھ کس قسم کا رویہ رکھیں، اور ان کو کیسے اپنی زندگی گزارنی ہے اور ان کا اس میں کیا کردار ہے۔“

AIDS Pakistan
ایڈز کے بارے میں نوجوانوں میں شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت پائی جاتی ہےتصویر: AP

وہ مزید کہتی ہیں کہ بچوں اور بڑوں میں HIV سے بچاؤ کے بارے میں شعور پیدا کیا جانا چاہئے، کیونکہ جب کوئی ایک مرتبہ ایڈز میں مبتلا ہوجاتا ہے توپھر زندہ اور تندرست رہنے کے لئے اس کے پاس ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ وہ تاحیات دواﺅں کا باقاعدہ اور لازمی طور پر استعمال کرے۔

ایڈز سے بچاؤ کا بہترین طریقہ خود کو صرف ایک جنسی ساتھی تک محدود رکھنا ہے۔ کثیر جنسی تعلقات رکھنے والوں کو کونڈوم استعمال کرنا چاہیے، ہمیشہ صاف اور ٹیسٹ شدہ خون استعمال کیا جائے اور اس کے علاوہ استعمال شدہ ٹیکے اور سوئیاں دوبارہ استعمال نہ کرنےسے اس مرض سے بچا جا سکتا ہے۔