1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: ’جنسی تنوع‘ کی تعلیم کے خلاف مہم

مقبول ملک14 جنوری 2014

جرمنی میں کسی تعلیمی منصوبے پر پہلے کبھی اتنی زیادہ ہلچل نہیں دیکھی گئی تھی۔ صوبے باڈن وُرٹیمبرگ کے اسکولوں میں آئندہ ’جنسی تنوع تسلیم کرنے‘ کو نصاب میں زیادہ اہمیت دی جائے گی لیکن اس کے خلاف انٹرنیٹ پر مزاحمت جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/1AqEO
تصویر: picture-alliance/dpa

2015ء سے جنوبی جرمن صوبے باڈن وُرٹیمبرگ میں ایک نیا تعلیمی منصوبہ نافذالعمل ہو جائے گا۔ اس منصوبے میں اس وفاقی ریاست کے اسکولوں میں تعلیمی نصاب کے بنیادی نکات کا تعین کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک صوبائی کمیشن گزشتہ ایک سال سے کام کر رہا ہے۔

ابھی تک اس کمیشن نے اپنی کوئی حتمی سفارشات پیش نہیں کیں لیکن باخبر حلقوں کے مطابق اندرونی طور پر جو دستاویزات تیار کی جا رہی ہیں، ان میں اس امر کی کھل کر وکالت کی گئی ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی میں ’جنسی تنوع‘ کے تسلیم کیے جانے کو واضح اہمیت دی جانا چاہیے۔

اس تجویز کے خلاف جرمنی میں بلیک فاریسٹ کے علاقے کے ایک اسکول ٹیچر نے انٹرنیٹ پر ایک باقاعدہ مہم شروع کر دی ہے۔ آن لائن دستخطوں کی اس مہم کے ذریعے متعلقہ ٹیچر نے نہ صرف تعلیم سے متعلق سیاست کے مقاصد کے اس تعین کے خلاف اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے بلکہ انٹرنیٹ صارفین سے یہ درخواست بھی کی ہے کہ وہ اس مزاحمتی مہم میں شامل ہوں۔

Symbolbild Homosexualität Schwules Paar
نئی تعلیمی پالیسی کا مقصد جنسی تنوع کو تسلیم کرنے کی ترغیب دینا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

بلیک فاریسٹ کے علاقے کے اس اسکول ٹیچر کے مطابق اس تعلیمی پالیسی کا مقصد صوبائی اسکولوں میں بچوں کی نصابی، اخلاقی اور نظریاتی تربیت کے موجودہ رخ کا نئے سرے سے تعین کرنا ہے۔ اب تک 90 ہزار سے زائد افراد اس آن لائن پٹیشن کی حمایت کر چکے ہیں۔ ان میں سے قریب نصف کا تعلق باڈن وُرٹیمبرگ سے ہے جبکہ باقی اس وفاقی ریاست سے باہر رہنے والے آن لائن صارفین ہیں۔

ماہرین تعلیم کے مطابق اشٹٹ گارٹ میں صوبائی حکومت کے قائم کردہ کمیشن نے جس ’جنسی تنوع‘ کی بات کی ہے، اس کا مقصد ہم جنس پرست مردوں اور خواتین اور اپنی جنس تبدیل کرا لینے والے افراد کے جنسی رجحانات اور طرز زندگی کے بلاتعصب تسلیم کیے جانے کی وکالت ہے۔ اس بارے میں انٹرنیٹ پر جو مہم جاری ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی تعلیمی پالیسی کی وکالت کرتے ہوئے ہم جنس پرست مردوں اور خواتین اور اپنی جنس تبدیل کرا لینے والے شہریوں کے طرز زندگی کے منفی اثرات کی درست عکاسی نہیں کی گئی۔ درخواست گزار اسکول ٹیچر نے واضح طور پر جو متوازی اثرات گنوائے ہیں، ان میں خودکشی، منشیات کا استعمال، ایڈز کا مرض اور دیگر جسمانی بیماریاں قابل ذکر ہیں۔

اس آن لائن پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس در‌خواست کا مقصد ہم جنس پرست مردوں، خواتین اور اپنی جنس بدلوا لینے والے شہریوں کے خلاف امتیازی رویہ نہیں ہے۔ لیکن یہ نکتہ اس آن لائن درخواست میں شروع میں شامل کیے جانے کے بجائے بعد میں شامل کیا گیا تھا۔

Flash-Galerie Schwul-Lesbisches Leben in Deutschland
فرینکفرٹ میں ہم جنس پرست خواتین کا ایک مظاہرہ، فائل فوٹوتصویر: picture alliance/dpa

جرمنی میں باڈن وُرٹیمبرگ کی صوبائی حکومت کے نئی تعلیمی پالیسی سے متعلق ارادے اپنی جگہ، فلَینس بُرگ یونیورسٹی کی سابقہ پروفیسر اور تعلیمی امور کی معروف ماہر کارلا اَیچَینبرگ کہتی ہیں کہ اشٹٹ گارٹ میں صوبائی حکومت کے منصوبوں میں ایسا کچھ بھی نہیں، جسے بہت منفرد یا بالکل نیا کہا جا سکے۔

کارلا اَیچَینبرگ کے مطابق اس موضوع پر پالیسی سازی کا کام بہت پہلے سے برلن اور برانڈن برگ کی صوبائی حکومتیں کر چکی ہیں۔ اسی طرح کی تعلیمی پالیسی سازی پر سب سے زیادہ آبادی والے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں بھی بہت کام کیا جا چکا ہے۔

جرمنی میں تعلیمی حوالے سے جنسی تنوع کی وضاحت اور اس کو تسلیم کرنے کی ترغیب، اس بارے میں بحث ابھی جاری ہے۔ اسی دوران بلیک فاریسٹ کے اسکول ٹیچر کی آن لائن پٹیشن کے مقابلے میں ایک ایسی انٹرنیٹ مہم بھی شروع کی جا چکی ہے، جو باڈن وُرٹیمبرگ میں نئی تعلیمی پالیسی کی حمایت کرتی ہے۔ اس پٹیشن کی اب تک 37 ہزار سے زائد شہری حمایت کر چکے ہیں، جو چاہتے ہیں کہ اس جرمن صوبے کے اسکولوں میں بچوں کو جنسی تنوع کو تسلیم کرنے کی ترغیب دلائی جانا چاہیے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید