1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بن غازی میں خلیفہ حفتر کے گھر پر حملہ

ندیم گِل4 جون 2014

لیبیا میں اسلام پسندوں کے خلاف لڑنے والے باغی جنرل خلیفہ حفتر کے گھر پر خود کش حملے میں کم از کم چار افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ خلیفہ حفتر محفوظ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1CBwu
تصویر: Reuters

یہ حملہ بدھ کو بن غازی میں خلیفہ حفتر کے گھر پر ہوا جو اس شہر میں فوجی کمانڈ سے زیادہ دُور نہیں ہے۔ فی الحال کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ تاہم خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق یہ حملہ اسلام پسندوں کی حکمت عملی کی نشاندہی کرتا ہے جن کے خلاف حفتر لڑائی کر رہے ہیں۔

عسکری ذرائع نے اس حملے کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک خود کش حملہ  آور نے بارُود سے لدی ایک گاڑی خلیفہ حفتر کی رہائش گاہ کے کمپاؤنڈ میں لے جانے کی کوشش کی۔ وہاں موجود محافظوں نے گاڑی پر فائرنگ کی تو بمبار نے دھماکا کر دیا۔

عسکری ذرائع میں سے ایک نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ حفتر محفوظ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حفتر کی جانب سے آج بدھ کو کسی وقت ایک نیوز کانفرنس سے خطاب متوقع ہے۔

Kämpfe in Benghazi 02.06.2014
خلیفہ حفتر اسلام پسندوں کے خلاف لڑ رہے ہیںتصویر: Reuters

حکام نے بتایا کہ اس حملے میں خودکش حملہ آور سمیت چار افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ کم از کم تین افراد زخمی ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا لیبیا کی ایئرفورس کے چیف آف اسٹاف صقر الجروشی معمولی زخمی ہوئے ہیں اور انہیں بن غازی کے ایک ہسپتال میں لے جایا گیا ہے۔

اے پی کے مطابق خلیفہ حفتر کو اسلام پسندوں کے مخالف سیاستدانوں، قبائل اور سفارت کاروں کی حمایت حاصل ہے۔ ان کی فورسز اور اسلام پسندوں کے درمیان لڑائی کے نتیجے میں بن غازی میں نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔

حفتر نے 2011ء میں معمر قذافی کے خلاف بغاوت کے دوران زمینی فورسز کی قیادت کی تھی۔ اب وہ بن غازی میں لڑائی کے دوران ہیلی کاپٹر استعمال کر رہے ہیں۔ حفتر کا کہنا تھا کہ وہ بن غازی سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لیے کارروائیاں کر رہے ہیں۔

اُدھر طرابلس میں لیبیا کے وزیر اعظم احمد معتیق کے دفتر پر راکٹ حملہ ہوا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وزیر اعظم کے ایک معاون نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس کے نتیجے میں کوئی فرد زخمی نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت وزیر اعظم دفتر میں موجود نہیں تھے۔