1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحری جہاز کا حادثہ، تقریباً 300 لاپتہ

Esther Felden / امجد علی16 اپریل 2014

جنوبی کوریا کے ساحلوں کے قریب ایک بحری جہاز کے الٹ جانے کے بعد تقریباً تین سو افراد لاپتہ ہیں۔ اب تک چار افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ 164 کو بچا لیا گیا ہے۔ اس بحری جہاز پر 459 افراد سوار تھے۔

https://p.dw.com/p/1BjgV
یہ بحری جہاز پہلے ایک جانب کو جھک گیا اور رفتہ رفتہ مکمل طور پر پانی کے اندر غائب ہوتا چلا گیا
یہ بحری جہاز پہلے ایک جانب کو جھک گیا اور رفتہ رفتہ مکمل طور پر پانی کے اندر غائب ہوتا چلا گیاتصویر: Reuters

اس بحری جہاز کے مسافروں کی زیادہ تر تعداد جنوبی کوریائی دارالحکومت سیول کے مضافاتی علاقے ’اَنسان‘ کے ڈین ون ہائی اسکول کے نو عمر طلبہ اور اُن کے اساتذہ پر مشتمل تھی، جو سیول سے ایک سو کلومیٹر دور ایک جزیرے ’جیجُو‘ کے تفریحی دورے پر جا رہے تھے۔ اس اسکول کے ایک عہدیدار نے ابتدا میں یہ کہا تھا کہ اسکول کے تمام 338 طلبہ اور اساتذہ کو بچا لیا گیا ہے تاہم اس دعوے کی کوسٹل گارڈز یا امدادی کاموں میں مصروف کسی اور ٹیم کی طرف سے تصدیق نہیں کی گئی۔

بحری جہاز کے زیادہ تر مسافر نو عمر اسکول طلبہ تھے، جو ایک تفریحی دورے پر جا رہے تھے
زیادہ تر مسافر نو عمر اسکول طلبہ تھے، جو ایک تفریحی دورے پر جا رہے تھےتصویر: Reuters

تقریباً ایک سو بڑی کشتیوں اور بحری جہازوں کے ساتھ ساتھ اٹھارہ ہیلی کاپٹر بھی امدادی کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں تاہم تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ابھی بھی 291 مسافر لاپتہ ہیں۔ سیول میں جرمن ادارے فریڈرش ناؤمن فاؤنڈیشن کے نمائندے لارس آندے رِشٹر نے ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے اس امر کی تردید کی کہ جنوبی کوریائی حکام اس حادثے کی سنگینی سے متعلق حقائق پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا، ’متضاد اطلاعات کی وجہ یہ ہے کہ امدادی کاموں میں تین مختلف ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں، جن میں ماہی گیروں اور بحری افواج کے ساتھ ساتھ ساحلی پولیس بھی شامل ہے اور کوئی بھی قطعی طور پر یہ نہیں جانتا کہ نجی طور پر کتنے لوگ مسافروں کو بچا کر اپنی کشتیوں میں لے گئے ہیں‘۔

جس وقت جنوبی کوریا کے جنوب مغربی ساحلوں کے قریب ’سیوول‘ نامی اس بحری جہاز کو یہ حادثہ پیش آیا، تب سمندر بڑی حد تک پُر سکون تھا۔ ایسے میں یہ بات ابھی واضح نہیں ہے کہ یہ جہاز کیوں غرق ہو گیا۔ اس حادثے کی ممکنہ وجوہات کے حوالے سے رِشٹر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ دو مفروضوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

1994ء میں جاپان میں تیار کیے جانے والے اس بحری جہاز میں نو سو سے زیادہ مسافروں کی گنجائش ہے جبکہ حادثے کے وقت اس پر محض 459 افراد سوار تھے
1994ء میں جاپان میں تیار کیے جانے والے اس بحری جہاز میں نو سو سے زیادہ مسافروں کی گنجائش ہے جبکہ حادثے کے وقت اس پر محض 459 افراد سوار تھےتصویر: Reuters

اُنہوں نے کہا:’’ایک تو یہ کوئی تکنیکی خرابی ہو سکتی ہے کیونکہ بچ جانے والے عینی شاہدین کے مطابق اُنہوں نے ایک بڑا دھماکا سنا تھا، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جہاز کے مشین روم میں کوئی دھماکا ہوا تھا۔‘‘ رِشٹر کے مطابق دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جہاز سمندر میں کسی چٹان سے ٹکرا گیا ہو۔ اُنہوں نے بتایا کہ اس بحری جہاز کا کپتان اپنے شعبے میں طویل تجربہ رکھتا تھا۔ چند ایک خبر رساں اداروں کے مطابق حادثے کے وقت موسم خراب تھا اور ہر طرف دھند چھائی ہوئی تھی۔

ایک بات طے ہے کہ 1994ء میں جاپان میں تیار کیے جانے والے اس جہاز میں گنجائش سے زیادہ وزن بالکل نہیں تھا۔ نو سو سے زیادہ مسافروں جبکہ 130 کاروں کی گنجائش کے حامل اس جہاز پر 459 مسافر اور تقریباً 150 کاریں تھیں۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر مسافر ابھی بھی جہاز کے اندر ہی پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ابتدائی اطلاعات کے برعکس اب یہ حادثہ جنوبی کوریا کی تاریخ میں گزشتہ بیس برسوں کے شدید ترین حادثے کی شکل اختیار کرتا نظر آ رہا ہے۔ 1993ء میں جنوبی کوریا کے ایک بحری جہاز کے غرق ہونے کے نتیجے میں اُس پر سوار 362 میں سے 292 مسافر ہلاک ہو گئے تھے۔