1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلام آباد: تصادم میں تین افراد ہلاک، سینکڑوں زخمی، مظاہرے جاری

شکور رحیم، اسلام آباد31 اگست 2014

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں حکومت مخالف جماعتوں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنوں کی پولیس کے ساتھ جاری پرتشدد جھڑپوں میں اتوار کی شام تک تین افراد ہلاک اور چار سو سے زائد زخمی ہو چکے تھے۔

https://p.dw.com/p/1D4Qw
تصویر: DW/Shakoor Raheem

اتوار کے روز وزیر اعظم نواز شریف کے زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں منگل کے روز پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس اجلاس میں جمہوریت اور آئین کی بالا دستی کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک قرارداد پیش کرنے کی منظوری بھی دی گئی۔ اعلیٰ سطحی اجلاس میں پارلیمنٹ پر حملے اور مظاہرین کے پرتشدد رویے کی مذمت بھی کی گئی۔

اسی دوران پاکستانی بری فوج کے سربراہ کی زیر صدارت کور کمانڈرز کی ایک کانفرنس بھی اپنے طے شدہ شیڈول سے ایک دن قبل یعنی آج اتوار کی شام ہو رہی ہے۔

Proteste gegen Regierung in Pakistan 31.08.2014
اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہفتے کی شب شروع ہونے والی جھڑپیں اتوار کو بھی دن بھر جاری رہیںتصویر: DW/Shakoor Raheem

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کور کمانڈرز کا اجلاس اب پیر کی بجائے اتوار کی شام کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں منعقد ہو گا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ ملکی صورتحال کے تناظر میں اس اجلاس میں اہم فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔

اس سے قبل اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہفتے کی شب شروع ہونے والی جھڑپیں اتوار کو بھی دن بھر جاری رہیں۔ متعدد مظاہرین جو گزشتہ رات حفاظتی جنگلہ توڑ کر پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں داخل ہو گئے تھے، ابھی تک وہیں خیمہ زن ہیں۔ شاہراہ دستور پر واقع سپریم کورٹ، پارلیمنٹ ہاؤس، ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس اور کیبنٹ ڈویژن کی حفاظت فوج کے پاس ہے۔

پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے دوران میڈیا کے نمائندوں کو پولیس اور مظاہرین کی جانب سے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ پولیس اہلکاروں نے مظاہرین پر تشدد کی کوریج کرنے والے رپورٹرز اور کیمرہ مینوں کو نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ ان کے کیمرے اور کوریج کرنے والی سیٹلائٹ گاڑیاں بھی توڑ دیں۔

میڈیا کے نمائندوں پر تشدد رکوانے کے لیے جب وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق شاہراہ دستور پر پہنچے تو چند پولیس اہلکاروں نے ان کے ساتھ بھی بد تمیزی کی کو شش کی۔ خواجہ سعد رفیق نے میڈیا پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ذمہ دار افراد سزا سے نہیں بچ سکتے۔ انہوں نے کہا، ’’جب ایک منظم فورس کا ڈسپلن قائم رکھنے والے، کوئی موجود نہ ہو تو، یہ قابو میں نہیں رہتے۔ ان کے ذمہ دار افسران کو سزا ملے گی اور میں گواہی دوں گا۔‘‘

Mindestens 50 Verletzte bei Protesten in Pakistan
تصویر: Reuters

دوسری جانب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری شاہراہ دستور پر ابھی تک اپنے کنٹینروں میں موجود ہیں۔ مظاہرین سے اپنے الگ الگ خطابات میں ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی صورت خالی ہاتھ واپس نہیں جائیں گے۔ انہوں نے مظاہرین پر پولیس تشدد کی سخت مذمت کی اور وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا اعلان کیا۔

تحریک انصاف کے ناراض رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے اتوار کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے پارٹی کی سینئر قیادت کے مشورے پر پریڈ ایونیو سے آگے نہ جانے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن پھر شیخ رشید کے ایک پیغام پہنچانے پر وہ پی ایم ہاؤس روانہ ہوگئے۔ انہوں نے کہا، ’’مارشل لاء کے اور ہمارے درمیان کوئی فاصلہ نہیں۔ اب ہم پندرہ بیس سال تک مارشل لاء سے متعلق صفائیاں دیتے مر جائیں گے۔ میں نے خان صاحب سے کہا کہ اس سے بچ جائیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ریڈ زون میں دودھ کے لیے بلکتے بچوں کے ہم سب سیاستدان قصور وار ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مظاہرین کے خلاف تشدد فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ جاوید ہاشمی نے عمران خان سے بھی اپیل کی کہ وہ تشدد کی قوتوں کے راستے پر نہ چلیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید