1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل نے بحیرہ احمر میں پکڑے گئے ہتھیار ڈسپلے کر دیے

ندیم گِل11 مارچ 2014

اسرائیل نے بحیرہ احمر میں ایک بحری جہاز سے گزشتہ ہفتے قبضے میں لیے گئے راکٹ ڈسپلے کر دیے ہیں۔ انہیں ایلات کی بندرگاہ پر رکھا گیا جہاں انہیں دیکھنے کے لیے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو بھی پہنچے۔

https://p.dw.com/p/1BN5q
تصویر: Reuters

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق بینجمن نیتن یاہو ایک چھ روزہ مہم کے بعد ان راکٹوں کو دیکھنے کے لیے پہنچے جس کا مقصد عالمی طاقتوں کو ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات میں سخت مؤقف اخیتار کرنے کے لیے تیار کرنا تھا۔

ابھی تک اسرائیلی حکام کو اپنے اس مقصد میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی جس سے عالمی رہنماؤں کے مؤقف کو تبدیل کرنے کے لیے انہیں درپیش مشکل کا اندازہ ہوتا ہے۔

پیر کو ایلات کی بندرگاہ کے دورے کے موقع پر نتین کاہو کا کہنا تھا: ’’کچھ لوگ چاہتے تھے کہ ہم آج یہاں پر نیوز کانفرنس کا اہتمام نہ کرتے، انہیں اس بات سے پریشانی ہے کہ ہم وہ دکھا رہے جو درحقیقت ایران کے اندر ہو رہا ہے۔‘‘

اسرائیلی بحریہ نے گزشتہ ہفتے ہتھیار لے جانے والے ایک بحری جہاز پر قبضہ کر لیا تھا جو مبینہ طور پر غزہ پٹی کے لیے راکٹ لے جا رہا تھا۔

Israel Schiff Iran Rakete M 302
یہ راکٹ گزشتہ ہفتے قبضے میں لیے گئےتصویر: Reuters

اسرائیلی حکام نے الزام لگایا تھا کہ غزہ پٹی کے شدت پسندوں کے لیے یہ ہتھیار ایران نے روانہ کیے تھے۔ اس بحری جہاز پر شامی ساختہ M-302 راکٹ لدے ہوئے تھے۔ یروشلم حکام کے مطابق ان راکٹوں کے ذریعے غزہ سے اسرائیل کے تمام شہروں کو نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔

اسرائیلی بحریہ نے اس جہاز کے خلاف کارروائی بحیرہ احمر میں بین الاقوامی سمندری حدود میں کی تھی۔ اس جہاز کو سوڈان کے ساحل سے 160 کلومیٹر کے فاصلے پر روکا گیا۔ حکام کے مطابق یہ کارروائی مہینوں سے جاری مشکل انٹیلیجنس کے نتیجے میں ممکن ہوئی۔

انہوں نے بتایا تھا کہ یہ راکٹ گزشتہ ماہ شام سے ایران بھیجے گئے تھے جہاں وہ بندر عباس سے عراق میں امِ قصر کے علاقے میں پہنچے۔

اسرائیل فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل بینی گانٹس کا کہنا تھا کہ ایک مؤثر انٹیلیجنس کارروائی کے ذریعے کافی عرصے سے اس جہاز کا پیچھا جاری تھا۔

اے پی کے مطابق غزہ پٹی میں شدت پسندوں کے پاس پہلے ہی ہزاروں راکٹ موجود ہیں تاہم ان کے بارے میں خیال ہے کہ وہ کم فاصلے تک مار کر سکتے ہیں۔ غزہ میں موجود راکٹوں کی نشاندہی اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ 2012ء میں آٹھ روز تک جاری رہنے والی لڑائی کے دوران اسرائیل پر ڈیڑھ ہزار راکٹ فائر کیے گئے تھے۔ ان میں سے بیشتر یروشلم اور تل ابیب کے نواحی علاقوں میں گِرے تھے۔