1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جوہری معاہدے کا سفر ’طویل‘ ہے، ایرانی صدر

ندیم گِل27 نومبر 2013

ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ حالیہ عبوری جوہری سمجھوتہ جامع معاہدے کے ’طویل‘ سفر کی جانب ایک درست قدم ہے۔ انہوں نے ایک نشریاتی خطاب میں اس معاہدے کا خیر مقدم بھی کیا۔

https://p.dw.com/p/1APA1
تصویر: Atta Kenare/AFP/Getty Images

حسن روحانی نے اپنی کابینہ کے ایک سو دِن مکمل ہونے کے موقع پر منگل کو ٹیلی وژن پر براہ راست خطاب میں کہا: ’’جنیوا میں طے پانے والا معاہدہ بہت ہی مثبت پہلا قدم ہے، لیکن ہمیں ایک طویل سفر کا سامنا ہے۔‘‘

انہوں نے زور دیا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے تحت یورینیئم کی افزودگی کا عمل جاری رہے گا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انہوں نے مزید کہا: ’’قدم بہ قدم، ہم پی فائیو پلس وَن کے ساتھ جامع معاہدے کے حصول کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا: ’’یورینیئم کی افزودگی، جو ہمارے حقوق کا حصہ ہے، جاری رہے گی ۔۔۔ ایران یورینیئم کی افزودگی کا عمل کبھی نہیں روکے گا۔‘‘

دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی کہا ہے کہ اب معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے کام کرنے کا وقت ہے۔ انہوں نے یہ بات دورہ یورپ کے بعد امریکا واپسی پر ارکانِ کانگریس کے نام ایک ویڈیو پیغام میں کہی ہے۔ انہوں نے زور دیا ہے کہ جنیوا میں طے پانے والے معاہدے کے تحت ایران پر نئی پابندیاں نہ لگائی جائیں۔

Atomverhandlungen mit Iran in Genf
امریکی وزیر خارجہ جان کیریتصویر: Reuters

اس پیغام میں جان کیری نے کہا: ’’ہم سب جانتے ہیں کہ معاہدہ ناکام ہوا تو ایران کو بہت جلد ہی مزید سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘

واضح رہے کہ 'پی فائیو پلس وَن‘ گروپ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان امریکا، فرانس، برطانیہ، روس اور چین کے ساتھ ساتھ جرمنی بھی شامل ہے۔

اس گروپ کے تمام ملکوں نے اتوار کو طے پانے والے اس معاہدے کا خیر مقدم کیا تھا۔ البتہ اسرائیل نے اس پر کڑی تنقید کی تھی۔

عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں ایران یورینیئم کی افزودگی پانچ فیصد کی سطح تک محدود رکھے گا۔ اس کے بدلے میں اس پر عائد پابندیاں ہٹائی جائیں گی۔ توقع ہے کہ اس سے ایرانی معیشت کو سات بلین ڈالر کا فائدہ ہو گا۔

معاشی تناظر میں عالمی منڈیوں پر اس معاہدے کے فوری اثرات پیر کو ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے۔ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت میں دو ڈالر فی بیرل کمی ریکارڈ کی گئی تھی جبکہ جاپان اور آسٹریلیا کے بازار حصص میں تیزی دیکھی گئی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید