Deutscher Buchpreis 2012
10 اکتوبر 2012جیوری نے بک پرائز دینے کے لیے چھ ناموں کا انتخاب کیا تھا اور اُرزُولا کریشل اس آخری مرحلے میں واحد خاتون تھیں۔ تاہم فیصلہ ان کے ناول ’’ Landgericht‘‘ یا ’’صوبائی عدالت‘‘ کے حق میں ہی ہوا۔ جیوری کے مطابق اُرزُولا کریشل کو جرمنی میں ادب کا یہ اعلیٰ انعام دینے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ انہوں نے اپنے ناول میں نہ صرف ایک پورے خاندان کی کہانی بیان کی ہے بلکہ ایک طرح سے ایک تاریخی ناول تخلیق کیا ہے، جس میں حقائق اور فرضی واقعات کا خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔ جیوری کے مطابق یہ ناول اس امرکی عکاسی کرتا ہے کہ جرمنی میں دوسری عالمی جنگ کے بعد کے دور کے ان واقعات کو بغیرکسی مبالغہ آمیزی کے اور پوری سچائی کے ساتھ بیان کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔
جرمن ادیبہ اُرزُولا کریشل کے اس ناول کا مرکزی کردار ایک جرمن یہودی رچرڈ کورنٹزر ہے، جو دس کی جلاوطنی کے بعد 1948ء میں جرمنی واپس آتا ہے۔ جرمنی میں اسے امید ہوتی ہے کہ اس کی اہلیہ اس کا انتظار کر رہی ہو گی۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران اس کی بیوی اس کے ساتھ کیوبا فرار ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی، جس کے بعد وہ جرمنی ہی میں کہیں روپوش ہو گئی تھی۔
رچرڈ کورنٹزر ایک وکیل تھا، جس نے اپنے شعبے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی۔ وہ برلن کی ایک عدالت میں فرائض انجام دیتا تھا تاہم 1933ء میں یہودی ہونے کی بناء پر اسے نوکری سے بھی نکال دیا گیا تھا۔ جب وہ جرمنی واپس پہنچتا ہے تو اسے امید ہوتی ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی کے حالات بدل چکے ہوں گے اور جرمنی کا نظام اسے قبول کرے گا لیکن واپس آنے کے بعد اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سسٹم میں اب بھی اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اُرزُولا کریشل نے اپنے اس ناول کے تخلیق سے قبل دس سال تک ماضی کے اوراق چھانے اور پوری طرح سے چھان بین کی، جس کے بعد اس ناول کو تحریر کرنے میں انہیں 26 ماہ لگے۔ ناول ''Landgericht‘‘ یا ’’صوبائی عدالت‘‘ پانچ سو صفحات پر محیط ہے۔ بک پرائز حاصل کرنے پر انہیں 25 ہزار یورو کی رقم دی گئی ہے۔ جرمن بُک پرائز دیے جانے کی روایت کا آغاز سن 2005ء میں ہوا تھا۔
R. Otte / aa / ai