1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رائے عامہ کے جائزے، اوباما کو رومنی پر سبقت

10 ستمبر 2012

امریکا میں منظر عام پر آنے والے تازہ عوامی جائزوں میں موجود صدر باراک اوباما کو اپنے ری پبلکن حریف مٹ رومنی پر برتری حاصل ہے۔ اس برتری نے رومنی کو اپنے موقف میں تبدیلی پیدا کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1664v
تصویر: DW/dapd

چھ نومبر کے امریکی صدارتی انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کے امیدوار مِٹ رومنی نے اپنی پارٹی کے کنونشن میں اپنے حریف امیدوار باراک اوباما کی صحت کے شعبے سے متعلق پالیسیوں کا مذاق اڑایا تھا، جس کے نتیجے میں رائے عامہ کے جائزوں میں اُن کی حمایت میں کمی دیکھنے میں آئی تھی۔ اب رومنی محتاط ہو گئے ہیں اور پارٹی کے موقف کے برعکس اوباما کی جانب سے صحت کے شعبے میں کی جانے والی اصلاحات کے کچھ حصے خود بھی اپنانا چاہتے ہیں۔

خود اپنی ری پبلکن پارٹی کی صفوں میں بھی رومنی کی شہرت ایک ایسے شخص کی ہے، جو رائے عامہ کے جائزوں کی روشنی میں اپنا موقف تبدیل کر لیتا ہے۔ دونوں جماعتوں کے پارٹی کنونشنز کے اختتام کے بعد جاری ہونے والے رائے عامہ کے تازہ جائزوں میں اوباما کو ملک بھر میں رومنی پر سبقت حاصل ہے۔گیلپ کے ایک سروے کے مطابق 49 فیصد نے اوباما کے لیے جبکہ 44 فیصد نے اُن کے حریف رومنی کے لیے پسندیدگی کا اظہار کیا۔ خاص طور پر اوہایو، آئیووا اور فلوریڈا جیسی فیصلہ کن ریاستوں میں موجودہ صدر اوباما کو سبقت حاصل ہے۔

انہی جائزوں کی روشنی میں مِٹ رومنی نے گزشتہ وِیک اَینڈ پر صحت کے شعبے کے حوالے سے اوباما کی متعارف کردہ اصلاحات کے حوالے سے اپنا موقف تبدیل کر لیا۔ نشریاتی ادارے این بی سی کے ایک پروگرام ’مِیٹ دی پریس‘ میں رومنی نے کہا:’’میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا کہ صحت کے شعبے میں متعارف کروائی جانے والی اصلاحات کے سبھی نکات واپس لے لوں۔ ان اصلاحات میں کئی چیزیں ایسی بھی ہیں، جو مجھے پسند ہیں اور مَیں اُنہیں برقرار رکھوں گا۔‘‘

ری پبلکن پارٹی کی صفوں میں بھی مِٹ رومنی کو اپنا موقف تبدیل کر لینے والی شخصیت سمجھا جاتا ہے
ری پبلکن پارٹی کی صفوں میں بھی مِٹ رومنی کو اپنا موقف تبدیل کر لینے والی شخصیت سمجھا جاتا ہےتصویر: Reuters

اگرچہ رومنی بدستور اس بات پر بھی اصرار کر رہے ہیں کہ وہ اوباما کی اصلاحات کی جگہ اپنا ایک الگ خاکہ متعارف کروائیں گے تاہم وہ اپنی جماعت اور نائب صدر کے امیدوار پال رائن کے نقطہ نظر کے برعکس اوباما کی متعارف کردہ پالیسی کے دو اہم نکات کو جوں کا توں رکھنے کی وکالت کر رہے ہیں۔

جہاں اُن کی جماعت کے ارکان ریاستی قرضوں کے بوجھ میں جلد از جلد کمی پر زور دے رہے ہیں، وہاں رومنی کا کہنا ہےکہ ایک متوازن بجٹ کی توقع کہیں اُن کی دوسری مدت صدارت کے آخر میں ہی کی جا سکتی ہے کیونکہ اُن کا موقف یہ ہے کہ قبل از وقت بہت زیادہ بچت معیشت کا گلا گھونٹ دے گی۔ رومنی کا یہ موقف بھی اوباما کی حکمت عملی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔

امریکی صدارتی مہم میں روزگار کے مواقع بھی ایک بڑا موضوع ہیں۔ رومنی بار بار یہ تذکرہ کرتے ہیں کہ ملک میں بیروزگاری کی شرح آٹھ فیصد سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ رومنی امریکی ووٹروں سے یہ وعدہ کر رہے ہیں کہ وہ چار سال کے اندر اندر ملازمتوں کے بارہ ملین نئے مواقع پیدا کریں گے۔ یہ اور بات ہے کہ اپنے اس وعدے کے ساتھ بھی وہ اب تک ووٹروں کی بھاری اکثریت کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

R.Sina/aa/km