1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جو ہوا، اُس پر گہرا افسوس ہے‘، بریوک

23 اپریل 2012

ناروے میں 77 افراد کے قتل کا اعتراف کرنے والے آندرس بیہرنگ بریوک کے خلاف مقدمے کی سماعت جاری ہے۔ آج پیر کو بریوک نے بتایا کہ اُس نے چُن چُن کر ایسے افراد کو ہلاک کیا، جو شکل سے ’بائیں بازو‘ سے تعلق رکھنے والے لگتے تھے۔

https://p.dw.com/p/14ja5
تصویر: Reuters

آج مقدمے کی کارروائی کے چھٹے روز 33 سالہ بریوک نے کہا کہ اُس کے خیال میں وہ دیکھ کر ہی اندازہ لگا سکتا تھا کہ اُس کی گولیوں کا شکار ہونے والوں کی نظریاتی وابستگی بائیں بازو کے ساتھ تھی یا دائیں بازو کے ساتھ۔ اُس نے کہا کہ ’کچھ لوگ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ’بائیں بازو‘ کے لگتے ہیں‘۔

اُس نے بتایا کہ جب وہ چُن چُن کر ایسے لوگوں کو اپنی گن اور پستول سے ہلاک کر رہا تھا، جو مارکسسٹ لگتے تھے، تب اُس نے قدامت پسند نظر آنے والے ایک شخص پر فائرنگ کرنے سے گریز کیا۔ بریوک نے کہا، ’وہ شخص دیکھنے میں دائیں بازو کا نظر آتا تھا اور اِسی لیے مَیں نے اُس پر فائرنگ نہیں کی‘۔ واضح رہے کہ اس مقدمے میں مرکزی اہمیت کا حامل نکتہ یہ ہے کہ بریوک کا ذہنی توازن درست ہے یا خراب۔

ایک شخص یوٹویا جزیرے پر مرنے والوں کی یاد میں پھول رکھ رہا ہے
ایک شخص یوٹویا جزیرے پر مرنے والوں کی یاد میں پھول رکھ رہا ہےتصویر: dapd

بریوک نے تفصیل سے عدالت کو بتایا کہ کیسے اُس نے گزشتہ سال بائیس جولائی کو پہلے دارالحکومت اوسلو کے سرکاری عمارات والے علاقے میں ایک بم دھماکہ کرتے ہوئے آٹھ افراد کو ہلاک کیا اور پھر چھوٹے سے جزیرے یوٹویا پر جا کر لیبر پارٹی کے ایک یوتھ کیمپ کے 69 شرکاء کو گولی مار کر ہلاک کر دیا، جن میں سے زیادہ تر نو عمر تھے۔

جس سرد انداز میں بریوک اپنی بے رحمانہ کارروائی کی تفصیلات بتا رہا ہے، اُس نے ناروے کے بہت سے شہریوں میں خوف و ہراس کی لہر دوڑا دی ہے۔ دوسری طرف ان شہریوں کی ایک بڑی تعداد بریوک کے اپنا مؤقف تفصیل سے بیان کرنے کے حق کا دفاع بھی کرتی ہے۔ چنانچہ بریوک کو یورپ میں غیر ملکیوں بالخصوص مسلمانوں کی آمد کے خلاف خبردار کرنے کا تفصیل سے موقع مل رہا ہے۔ ساتھ ساتھ اُس نے بتایا ہے کہ کیسے انٹرنیٹ پر وہ بم بنانے کے نسخے ڈھونڈتا رہا اور اپنا پندرہ سو صفحات کا وہ منشور لکھتا رہا، جس میں اُس نے خود کو ایک ایسے خفیہ گروپ کا رکن بتایا ہے، جو اُس کے خیال میں القاعدہ کے خلاف یورپ کا جواب ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی خفیہ گروپ وجود ہی نہیں رکھتا ہے۔

بریوک کا مؤقف یہ رہا ہے کہ اُس نے کوئی جرم نہیں کیا اور یہ کہ اُس کا شکار بننے والے ایسے ’غدار‘ تھے، جنہوں نے اپنے کثیرالثقافتی خیالات کی وجہ سے ایسا ماحول تیار کیا، جس میں بقول اُس کے مسلمانوں کو یورپ پر چڑھائی کا موقع مل گیا۔

چودہ چودہ سال کے نوعمر بھی بریوک کی گولیوں کا شکار ہوئے
چودہ چودہ سال کے نوعمر بھی بریوک کی گولیوں کا شکار ہوئےتصویر: dapd

تاہم آج پیر کو بریوک نے پہلی مرتبہ کچھ ایسا بھی کہا، جسے ایک طرح سے معافی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اُس نے اوسلو میں اپنے 950 کلو گرام وزنی بم کے دھماکے میں زخمی یا ہلاک ہونے والے بے گناہ راہگیروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا:’’اُن سب سے مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو ہوا، اُس پر مجھے گہرا افسوس ہے لیکن جو ہونا تھا، ہو گیا۔‘‘ اوسلو بم دھماکے میں 200 سے زائد افراد زخمی بھی ہو گئے تھے۔

یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ ایک باضمیر شخص ہے، بریوک نے آج عدالت کو بتایا کہ اُس نے ایک دَس سالہ لڑکے کو بھی بخش دیا تھا:’’میری سمجھ میں نہیں آیا کہ اتنا چھوٹا سا بچہ اس سیاسی نظریاتی کیمپ میں کیا کر رہا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ اِس بچے کا والد بریوک کا پہلا شکار تھا، جو ایک پولیس افسر تھا۔ وہ اُس روز ڈیوٹی پر نہیں تھا اور اِس کیمپ میں سکیورٹی گارڈ کے طور پر کام کر رہا تھا۔

بریوک کی گولیوں کا شکار ہونے والوں میں چودہ چودہ سال کے نوعمر بھی شامل تھے۔ بریوک کے خلاف مقدمے کی کارروائی مجموعی طور پر دَس ہفتے تک جاری رہے گی۔

aa/ai (Reuters)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید