’موقع ملا تو پھر یہی کچھ کروں گا‘، بریوک
17 اپریل 2012بریوک نے اِس موقع کو اپنی بے رحمانہ کارروائی کی تعریف و تحسین کے لیے استعمال کیا۔ آج مقدمے کی کارروائی کے دوسرے روز آندرس بیہرنگ بریوک نے خود کو جس انداز میں پیش کیا، وہ اُس کے وکیل گیئر لپے سٹڈ کی پیشین گوئی کے عین مطابق تھا۔ اُسے اپنے اقدام پر کسی قسم کا پچھتاوا نہیں تھا اور اُس نے نمایاں طور پر اپنے کیے پر فخر کا اظہار کیا۔ بریوک کو اپنے بیان کے لیے تیس منٹ کا وقت دیا گیا۔ اگرچہ خاتون جج آرنٹسن نے اُس پر اپنا لب و لہجہ نرم کرنے کے لیے بھی زور دیا تاہم بریوک نے اپنی کارروائی کو دوسری عالمی جنگ کے بعد سے سب سے زیادہ صفائی سے کیا جانے والا اور ہنگامہ خیز ترین سیاسی حملہ قرار دیا اور زور دے کر کہا کہ موقع ملنے پر وہ پھر بھی یہی کچھ کرے گا۔
بریوک کی جانب سے ایک کاغذ پر سے پڑھ کر سنائے جانے والے بیان میں زیادہ تر اس بات کا ذکر تھا کہ یورپ اسلام کے رنگ میں رنگا جا رہا ہے اور ناروے کی حکومت نے جان بوجھ کر اس رجحان کو فروغ دیا ہے۔ اُس کا کہنا تھا کہ چونکہ ایک پُر امن انقلاب ممکن نہیں ہے اس لیے تشدد کا راستہ واحد چارہ رہ جاتا ہے۔ بریوک کے ہاتھوں مرنے والوں کے لواحقین نے اپنے وکلاء کے ذریعے اس بات پر احتجاج کیا تھا کہ بریوک کو اتنی تفصیل کے ساتھ اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا جا رہا ہے۔
آج مقدمے کی کارروائی کے دوسرے روز خاتون جج آرنٹسن نے کہا کہ ممکنہ طور پر جیوری کا ایک رکن غیر جانبدار نہیں ہے:’’عدالت کو آج یہ بات پتہ چلی ہے کہ جیوری میں شامل ایک رکن نے ان حملوں کے فوراً بعد یہ کہا تھا کہ اس معاملے میں ملزم کے لیے واحد مناسب سزا موت کی سزا ہے۔‘‘
اس پر استغاثہ اور وکلائے صفائی دونوں نے متفقہ طور پر اِس رکن کو مقدمے کی آئندہ کارروائی سے الگ کرنے کے حق میں رائے دے دی۔ اس رکن نے بھی ایک انٹرنیٹ فورم پر ایسا بیان جاری کرنے کا اعتراف کر لیا۔ بعد ازاں خاتون جج آرنٹسن نے بتایا کہ اس رکن کو جیوری سے الگ کرنے اور اُس کی جگہ ایک اور جج کو جیوری میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اِس کے بعد مقدمے کی کارروائی آواز یا تصویر کے بغیر جاری رکھی گئی تاکہ گزشتہ سال بائیس جولائی کے حملوں میں مرنے والوں کے لواحقین یا اُن حملوں میں زندہ بچ جانے والوں کو کوئی آزار نہ پہنچے۔ کل کی طرح آج بھی اپنی ہتھکڑی اترنے کے بعد تینتیس سالہ بریوک نے دائیں ہاتھ کا مکا بنا کر مخصوص انداز میں سلام کیا۔ اُس نے ایک روز پہلے اپنی بنائی ہوئی بارہ منٹ دورانیے کی اسلام مخالف فلم کی نمائش کے دوران اپنے آنسوؤں کا جواز بھی پیش کیا۔ اُس نے کہا، وہ اِس بات پر اداس ہے کہ ناروے مر رہا ہے اور اُس کے آنسوؤں کا مقصد اسی بات پر دکھ کا اظہار کرنا تھا۔
Albrecht Breitschuh/aa/ij