امن مذاکرات میں کوئی برائی نہیں، مولوی فقیر محمد
7 مارچ 2012برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے مولوی فقیر محمد کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہ مبینہ طور پر اسلام آباد حکومت کے ساتھ امن مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے۔
افغانستان سے ملحق پاکستانی قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مولوی فقیر نے نامعلوم جگہ سے ٹیلی فون پر روئٹرز کو بتایا کہ اس نے کبھی بھی کونسل کے احکامات سے نافرمانی نہیں کی: ’میں نے جب کبھی بھی حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کیے، اس سے قبل میں نے تحریک طالبان پاکستان کی مرکزی کونسل سے اجازت اور مشورہ لیا۔‘
مولوی فقیر محمد نے مزید کہا کہ جب افغان طالبان امریکا کے ساتھ مذاکرات کر سکتے ہیں تو تحریک طالبان پاکستان، اسلام آباد حکومت سے مذاکرات کیوں نہیں کر سکتی۔
تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے مولوی فقیر محمد کی برطرفی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فیصلہ عسکریت پسندوں کی مرکزی کونسل نے متفقہ طور پر کیا، جس میں مبینہ طور پر پاکستانی طالبان کا سربراہ حکیم اللہ محسود بھی شامل تھا۔ تاہم مولوی فقیر محمد نے اپنی برطرفی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسے یہ علم نہیں کہ مرکزی کونسل کا اجلاس کہاں اور کب ہوا۔
ایسی اطلاعات ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت حکومت پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات پر منقسم ہے۔ روئٹرز نے میڈیا رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ مختلف جنگجو گروپوں کی نمائندہ تنظیم تحریک طالبان پاکستان میں انتہائی کٹر نظریات کے حامل اسلام آباد حکومت کے ساتھ مذاکرات کی مخالفت کرتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ حکیم اللہ محسود بھی پاکستان کےساتھ مذاکرات کے حق میں نہیں ہے۔
پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے مابین مبینہ امن مذاکرات کی خبریں گزشتہ کئی ماہ سے گردش کر رہی ہیں۔ مولوی فقیر محمد پاکستانی طالبان میں ایک ایسا اہم رہنما ہے، جس نے ہمیشہ ہی ان مذاکرات کی مبینہ حمایت کی ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق گزشتہ برس دسمبر میں بھی مولوی فقیر محمد نے امید ظاہر کی تھی کہ باجوڑ ایجنسی کے طالبان اسلام آباد کے ساتھ فائر بندی کا ایک معاہدہ کر سکتے ہیں، جو دیگر طالبان کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: شامل شمس