ایک اور زبان سیکھنا دماغ کے لیے نہایت مفید
13 جنوری 2015بہت سی سائنسی تحقیقات کے نتائج سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ایک سے زیادہ زبان سیکھنے سے دماغی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ تاہم ایک تازہ تجزیاتی جائزے کے مطابق زبان سیکھنے کے عمل سے اُن افراد کے دماغ کو زیادہ تقویت پہنچتی ہے جو بچپن کے درمیانی دور میں ایک اور زبان سیکھنا شروع کرتے ہیں۔
امریکی تحقیقی جریدے ’پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز‘ میں چپھنے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق ایسے افراد جنہوں نے 10 سال کی عمر میں انگریزی سیکھنا شروع کی اور اس زبان کو بولنے کے علاوہ سننے کا بھی موقع ملا ان کے دماغ کے سفید مادے کی ساخت میں اُن افراد کے مقابلے میں بہت بہتری دیکھنے میں آئی جو محض ایک زبان یعنی انگریزی بولتے اور سُنتے ہوئے پروان چڑھتے ہیں اور جنہوں نے کوئی دوسری زبان نہیں سیکھی۔
ایک سے زائد زبان سیکھنے والے افراد کے دماغ کے جس حصے کی ساخت میں بہتری آئی وہ حصہ زبان سیکھنے اور معنویات سے متعلق پروسیسنگ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
اس تازہ تجزیے سے ماضی میں کیے جانے والے اُن تجزیاتی جائزوں کی عکاسی ہوتی ہے جن میں یہ ثابت کیا جاتا رہا ہے کہ بچپن ہی سے ایک اور زبان سیکھنے والے افراد کے ذہن کے ایک خاص حصے کی نشو و نما دیگر افراد سے کہیں بہتر ہوتی ہے۔
اس جائزے میں محققین نے 20 افراد کے دماغ کے اسکین کا مشاہدہ کیا۔ ان سب کی عمر 30 کے قریب تھی اور یہ سب کم از کم 13 ماہ کے لیے برطانیہ میں رہ چُکے تھے۔ ان سب نے قریب 10 سال کی عمر سے انگریزی زبان سیکھنا شروع کر دی تھی۔ ان افراد کے دماغ کے ایمیجنگ تجزیے کا موازنہ ایسے افراد سے کیا گیا جو محض انگریزی بول سکتے تھے۔
روز مرہ زندگی میں یک سے زائد زبانوں کے ساتھ رابطے میں رہنے اور اس ان کی مدد سے کام کرنے سے دماغ کے ڈھانچے کو انتہائی ادراکی یا علمی محرک کی مدد ملتی ہے جو لسانیات سے متعلق دماغی ڈھانچے کی سالمیت کو محفوظ بنانے میں غیر ممولی کردار ادا کرتا ہے نیز ایک سے زائد زبانوں کے ساتھ روز مرہ کے کام انجام دینے والے افراد میں بڑھاپے میں ذہنی تنزلی اور کمزوری کے امکانات کافی کم ہو جاتے ہیں۔
اس بارے میں تجزیاتی جائزے پیش کرنے والے امریکا کے کینٹ اسکول آف سائیکالوجی کے مححققین کی ٹیم کے سربراہ کرسٹوس پلیاٹسکاس ہیں۔
ماضی میں اس بارے میں ہونے والے زیادہ تر تجزیاتی مطالعات میں ایسے افراد پر ریسرچ کی گئی جنہوں نے بچپن میں دو یا اس سے زیادہ زبانیں سیکھیں اس لیے مححقین کا کہنا ہے کہ اس بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ دماغ میں یہ مثبت تبدیلیاں کس مخصوص وقت میں جنم لینا اور جڑیں پکڑنا شروع کر دیتی ہیں۔