پاکستان میں نیوکلیئر ادویات کے استعمال میں اضافہ
13 دسمبر 2012پاکستان میں صحت کے شعبے میں نیوکلیئر ادویات سے بھرپور استفادہ کیا جا رہا ہے، اس وقت ملک میں پچاس ایسے طبی مراکز موجود ہیں جہاں نیوکلیئر ادویات استعمال کی جا رہی ہیں، ان میں سے بیس میڈیکل سنٹرز پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے زیر اہتمام کام کر رہے ہیں جبکہ باقی سرکاری اور نجی شعبے میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
پاکستان سوسائٹی آف نیوکلیئرمیڈیسن کے صدر ڈاکٹر درصبیح نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں ہر سال دس لاکھ سے زائد مریض نیوکلیئر ادویات سے استفادہ کرتے ہیں جبکہ نیوکلیئر ادویات کے شعبے میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کی تعداد ایک سو پچاس کے قریب ہے۔
ڈاکٹر در صبیح (جو کہ ملتان انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر میڈیسن اینڈ ریڈیو تھراپی کے ڈائریکٹر بھی ہیں) نے بتایا کہ نیوکلیئر میڈیسن نہ صرف بیماریوں کی تشخیص میں معاون ثابت ہو رہی ہیں بلکہ ان کے ذریعے تھائی روئیڈ، سرطان اور جوڑوں کے درد سمیت متعدد بیماریوں کا علاج بھی کیا جا رہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صبیح کا کہنا تھا کہ دنیا اب نیوکلیئر میڈیسن سے بھی آگے یعنی مالیکولر ٹریٹمنٹ کی طرف جا رہی ہے،اس کی وجہ سے اب بیماری کے شکارانسان کے خلیے کا انفرادی تجزیہ کر کے اس کے مرض کی حقیقی وجہ معلوم کرکے مریض کے لیے انفرادی دوا تجویز کرنا بہت آسان ہو گیا ہے، اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے قبل بعض ڈاکٹر کھانسی کے مریضوں کومختلف آپشنز استعمال کرتے ہوئے اپنے اندازے سے دوا تجویزکر دیا کرتے تھے اسی لیے ہر مریض پراس دوا کا مختلف اثر ہوتا تھا، کچھ ٹھیک ہوجاتے تھے اور کچھ کو آفاقہ نہیں ہوتا تھا۔ اب مالیکولرٹریٹمنٹ کے ذریعے ٹیلرڈ ٹریٹمنٹ ممکن ہو گیا ہے۔
نیوکلیئر ادویات سے علاج عام طور پر بہت مہنگا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں اس علاج پر اٹھنے والی لاگت پر حکومت کی طرف سے بھاری سبسڈی دی جاتی ہے، اس لیے یہ علاج ابھی تک عام آدمی کی پہنچ میں ہے۔ایک اندازے کے مطابق تقریبا پچاس فی صد پاکستانیوں کو نیوکلیئر ادویات کی سہولت بغیر کسی معاوضے یا پھر انتہائی قلیل معاوضے پر دستیاب ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹردر صبیح کا کہنا تھا کہ پاکستان میں نیوکلیئر میڈیسن کے حوالے سے قائم کیے گئے تمام میڈیکل سنٹرز ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) کی طرف سے مقرر کردہ حفاظتی معیارات کے تحت کام کرتے ہیں، اس حوالے سے ملک میں قائم کیا جانے والا ایک ادارہ پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی بھی ان میڈیکل سنٹرز کی گہری نگرانی کرتا ہے، جبکہ ہر سنٹر میں بہت سے دوسرے اقدامات کے ساتھ ساتھ ایک ریڈی ایشن سیفٹی آفیسر بھی تعینات کیا جاتا ہے جس کا کام ہی نیوکلیئر ادویات کے استعمال کے دوران حفاظتی تدابیر کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان ایسے ملکوں میں شامل ہے جن کو آئی اے ای اے کی طرف سے سب سے زیادہ فنی اور مالی امداد ملتی ہے، اس وقت بھی اس ادارے کی معاونت سے پاکستان میں نیوکلیئر ادویات کے شعبے میں حفاطتی نظام کو مزید مضبوط بنانے کے لیے کئی منصوبوں پر کام جاری ہے۔
۔
پاکستان میں شوکت خانم ہسپتال کے نیوکلیئر ادویات کے شعبے سے وابستہ ایک سینیئر ڈاکٹر خالد نواز نے بتایا کہ گیما ریز امراض کی تشخیص میں اور بی ٹا پارٹیکلز بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ ان کے بقول ان نیوکلیئر ادویات کی شدت اتنی کم ہوتی ہے کہ اس سے کسی بڑے نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا۔
ان کے بقول پاکستان کے ہر ہسپتال اور ہر کالج میں نیو کلیئر میڈیسنز کا شعبہ ضرور ہونا چاہیے۔ان کے بقول اس وقت پاکستان میں ایک ملین افراد کے لیے نیوکلیئر میڈیسن کا صرف ایک ڈاکٹر موجود ہے۔ پاکستان میں نیوکلیئر میڈیسن کے ذریعے امراض کی تشخیص کرنے والی صرف دو پٹ اسکینر مشینیں موجود ہیں اور یہ دومشینیں بھی لاہور میں ہیں اور پورے پاکستان سے مریضوں کو اس سلسلے میں لاہور آنا پڑتا ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نیوکلیئر میڈیکل کا شعبہ پرایئویٹ پریکٹس کے کم امکانات کے باعث زیادہ منافع بخش نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان ڈاکٹروں کی توجہ سے محروم ہوتا جا رہا ہے، کئی ڈاکٹر یہ شعبہ چھوڑ کر دوسرے شعبوں کو اختیار کرچکے ہیں۔
بعض ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیوکلیئر ادویات کے ساتھ استعمال ہونے والی مشینری کی امپورٹ پر اب زیادہ قواعد و ضوابط عائد کیے جا چکے ہیں۔ اس لیے اس سلسلے میں بعض اوقات دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،جبکہ بعض دوسرے ڈاکٹروں کے مطابق اس سیکٹر میں فنڈز کی کمی بھی ایک اہم مئسلہ ہے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: کشور مصطفیٰ