بالغ خلیوں کو سٹَیم سیلز میں تبدیل کیا جا سکتا ہے: طبی تحقیق میں انقلاب
10 اکتوبر 2012یہی وجہ ہے کہ سٹاک ہوم میں اس سال کے نوبل میڈیسن پرائز کا اعلان کرنے والی کمیٹی نے برطانوی سائنسدان جان گرڈن اور ان کے جاپانی ساتھی شنیا یاماناکا کے کارناموں کو انقلابی قرار دیا۔
اس سال کے نوبل انعام برائے طب کے سٹاک ہوم کے کارولنسکا انسٹیٹیوٹ کی طرف سے کیے گئے اعلان پر برطانوی محقق جان گرڈن اور ان کے جاپانی ساتھی شنیا یاماناکا کے ساتھ ساتھ اُن تمام ماہرین میں بھی مسرت اور فخر کی لہر دوڑ گئی جو سٹَیم سیلز یعنی خام یا غیر متشکل خلیے جن سے مخصوص خلیے بنتے ہیں، پر طویل عرصے سے تحقیق کر رہے ہیں۔ جرمن شہر کولون کی یونیورسٹی سے منسلک خام خلیوں پر تحقیق کے معروف ماہر Jürgen Hescheler پُر جوش انداز میں کہتے ہیں، ’مجھے بہت زیادہ خوشی ہوئی ہے‘۔
نوبل کمیٹی کی جیوری نے طبی دنیا کے اس معتبر ترین تصور کیے جانے والے اعزاز کے حقداروں کے ناموں کا اعلان کرتے ہوئے کہا،’اس سال طب کا نوبل پرائز حاصل کرنے والے برطانوی محقق جان گرڈن اور جاپانی سائنسدان شنیا یاماناکا نے سیلز یا خلیات اور عضویات کی نشو و نما اور ترقی کے بارے میں اب تک کی معلومات اور سوچ میں ایک انقلاب پیدا کر دیا ہے‘۔
جان گرڈن نے 1962ء میں مینڈک کی چھوٹی آنت کے خلیے سے ’سیل نیوکلیئس‘ یا خلیے کے اندرونی حصے، جو مرکز کے بیچوں بیچ ہوتا ہے اور نشو و نما اور نسلی ارتقاء میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے، حاصل کر کے اسے ایک نئے مینڈک کے انڈے سے ملایا تھا، جس کے نتیجے میں ایک ایسا مینڈک پیدا ہوا تھا، جو کسی بھی دوسرے عام مینڈک ہی کی طرح کا تھا۔ اسی ٹیکنالوجی کے تحت ڈَولی نامی بھیڑ کا كلون تیار کیا گیا تھا، جو کہ پہلی کلون شدہ ممالیہ جانور تھی۔
نوبل انعام کے حقدار جاپانی سائنسدان شنیا یاماناکا کیوٹو یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے ’کنیکٹیو ٹشوز‘ یا بافتی خلیوں کو آپس میں جوڑے رکھنے والے خلیوں میں ایک خاص قسم کے وائرس کو پلنے دیا۔ اس کے نتیجے میں’کنیکٹیو ٹشوز‘ کو آپس میں جوڑے رکھنے والے سیلز میں کروموسوم کے بنیادی جوڑوں میں چار اقسام کی موروثی پروٹینز نے جنم لیا۔ سٹَیم سیلز کی اس نئی قسم کو Induced-Pluripotent Stem Cells یا iPS سیلز کہا جاتا ہے۔
نوبل انعام کا فیصلہ کرنے والی جیوری کا کہنا ہے کہ اس تجربے سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ خلیے اور اجسام کیسے تیار ہو سکتے ہیں۔
اس کمیٹی کا کہنا تھا، ’ان دریافتوں نے دنیا بھر کے سائنسدانوں کو ایک ایسی نئی ٹیکنالوجی سے متعارف کرایا ہے، جو علاج کے کئی شعبوں میں کافی اہم ثابت ہوگی‘۔
O. Brigitte, km / J. Hartl, mm