1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’یوکرائن یورپ کا کشمیر ہے‘

ندیم گِل23 اکتوبر 2014

روس اور یوکرائن کے درمیان علیحدگی پسندوں کے زیر قبضہ شہر ڈونیٹسک کے معاملے پر رسہ کشی نے یورپ میں ایک کشمیر کو جنم دیا ہے۔ یہ بات روس کے امور کے ایک ماہر اِگور سوتیاجین نے کہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Da54
تصویر: Reuters

سوتیا جین کا کہنا ہے کہ روس اور یوکرائن کے مابین اس معاملے پر تنازعہ برسوں جاری رہ سکتا ہے۔ یوکرائن کو یورپی کشمیر قرار دینے والے تجزیہ کار  اِگور سوتیاجین رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اینڈ سکیورٹی اسٹیڈیز کے فیلو ہیں جبکہ وہ روس میں سیاسی قیدی بھی رہ چکے ہیں۔

ان کہنا ہے کہ سرحد کے دونوں جانب عسکری طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے اور دونوں جانب کے عوام کے درمیان نفرت کے جذبات بڑھ رہے ہیں۔

اِگور سوتیا جین نے بدھ کو لندن میں تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام گلوبل سکیورٹی سیمینار سے خطاب میں پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ علاقے کشمیر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’’اب ہم یورپ کے وسط میں ایک اور کشمیر کو دیکھ رہے ہیں ۔۔۔ وقتاﹰ فوقتاﹰ جھڑپیں ہوتی رہیں گی کیونکہ کوئی بھی فریق پیچھے نہیں ہٹے گا۔‘‘

اقوام متحدہ کے مطابق یوکرائن میں حکومت اور علیحدگی پسندوں کے درمیان لڑائی کے نتیجے میں ساڑھے تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ لڑائی مغرب نواز رہنماؤں کی جانب سے کییف حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد شروع ہوئی۔ اس سے قبل عوامی مظاہروں کے نتیجے میں روس نواز صدر وکٹور یانوکووچ نے اقتدار چھوڑ دیا تھا۔

ASEM Gipfel in Mailand 17.10.2014 Poroschenko
یوکرائن کے صدر پیٹرو پورو شینکوتصویر: picture-alliance/dpa/Metzel Mikhail

کییف حکومت اور مغربی ممالک روس پر یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں کشیدگی کو ہوا دینے کا الزام دیتے ہیں۔ وہ ماسکو حکومت پر پابندیاں بھی نافذ کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روس یوکرائن میں علیحدگی پسندوں کی مدد کر رہا ہے۔ روس اس الزام کو ردّ کرتا ہے۔

گزشتہ ہفتے روسی صدر ولادیمیر پوٹن، ان کے یوکرائنی ہم منصب پیٹرو پورو شینکو اور عالمی رہنماؤں نے ایک نشست میں اس مسئلے پر غور کیا تھا۔ تاہم تشدد کے خاتمے کے لیے حکمت عملی طے کرنے پر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔

سوتیاجین کا کہنا ہے کہ یوکرائن اپنی تقریباﹰ تمام مسلح افواج کو روس کے ساتھ اپنے مشرقی سرحدی علاقے میں منتقل کر چکا ہے جو اس سے قبل ملک کے مغربی حصے میں تعینات ہوتی تھیں۔

انہوں نے تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا: ’’انہوں نے روس کو کبھی خطرہ نہیں سمجھا تھا۔ اب انہوں نے اپنے دفاعی منصوبوں کو مکمل طور پر نئی سمت دی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا: ’’روس میں ایک سال پہلے تک کبھی کسی نے یوکرائن کو دشمن نہیں سمجھا تھا۔ میرے خیال میں اب تین چوتھائی روسی عوام کو یقین ہے کہ یوکرائنی بہت ہی خطرناک ہیں۔‘‘

اِگور سوتیاجین نے کہا کہ یوکرائن میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے کیا جانے والا پروپیگنڈا روس کی مانند نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہاں روس کے بارے میں رائے عامہ کچھ بہتر ہے، لیکن اب وہاں بھی صورتِ حال بگڑ رہی ہے۔