یوکرائن کی مخدوش سلامتی کی صورتحال
23 اپریل 2014منگل کی رات یوکرائن کی عبوری حکومت نے مشرقی حصے میں مسلح روس نواز افراد کے خلاف اپنا معطّل شدہ فوجی آپریشن دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انسداد دہشت گردی کا یہ آپریشن ایسٹر کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ یہ اعلان عبوری صدر اولیکزانڈر تُرچینوف نے کیا۔ ایسٹر کی تعطیلات کے دوران سلاویانسک شہر سے دو افراد کی نعشیں بھی ملی ہیں جن پر خاصا تشدد کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک مقامی کونسلر تھا۔ یوکرائن کے اندرونی حالات پر نگاہ رکھنے والی یورپی تنظیم برائے سکیورٹی تعاون (OSCE) نے بھی بتایا کہ باغیوں نے کراماٹورسک (Kramatorsk) قصبے کے تھانے کے سربراہ کو مغوی بنا لیا ہے۔ اِس تھانے پر روس نواز مسلح افراد نے پیر کے روز قبضے کیا تھا۔
یوکرائن کی عبوری حکومت نے مشرقی علاقے میں سکیورٹی کارروائی دوبارہ شروع کرنے کا اعلان امریکی نائب صدر جو بائیڈن کے دو روزہ دورے کے اختتام پر کیا۔ اسی دوران امریکا نے اپنے چھ سو فوجی پولینڈ اور بالٹک ریاستوں میں فوجی مشقوں کے روانہ کرنے کا اعلان بھی کیا۔ یوکرائن کے نائب وزیر اعظم اول وٹالی یاریما (Vitaly Yarema) کا کہنا ہےکہ امریکا نے یوکرائن حکومت کو اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ اسے جارحیت پسندوں کے رحم وکرم پر تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے آج بدھ کے روز واضح کیا کہ اگر یوکرائن میں ماسکو کے جائز مفادات اور روسی آبادی کو نقصان پہنچا تو اُس کا فوری طور پر جواب دیا جائے گا اور ضرورت پڑنے پر فوج بھی روانہ کی جا سکتی ہے۔ روسی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ روسی ایکشن اسی انداز کا ہو گا جیسا کہ جنوبی اوسیتیا میں کیا گیا تھا۔ روس نے سن 2008 میں جورجیا کے ساتھ جنوبی اوسیتیا کے تنازعے پر جنگ کی تھی۔ لاوروف کے مطابق یوکرائن میں روسی مفادات کو ضرب پہنچنے پر قانون بین الاقوام کے تحت جواب دیا جائے گا۔ روسی وزیر خارجہ کا بیان سرکاری ٹیلی وژن پر نشر کیا گیا۔ لاوروف کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی نائب صدر کی کییف میں موجودگی کے دوران سکیورٹی آپریشن شروع کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا وہ اس بات کا عکاس ہے کہ امریکا براہ راست معاملات کی نگرانی کر رہا ہے۔
اُدھر مشرقی یوکرائن میں مسلح افراد نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک صحافی کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ اغوا کیا جانے والا صحافی سائمن اوسٹراوسکی امریکی ہے اور وہ وائس نیوز کے ساتھ وابستہ ہے۔ وہ منگل کے روز سے لاپتہ تھا۔ سلاویانسک شہر میں روس نواز مزاحمت کاروں کی ترجمان اسٹیلا خوروشیوا نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو امریکی صحافی کے مغوی بنائے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہ روس نواز مزاحمت کاروں کے ایک مقامی گروپ کی تحویل میں ہے۔ ترجمان کے مطابق مغوی صحافی بخیریت ہے اور اُس کو پوچھ گچھ کے لیے تحویل میں لیا گیا ہے کیونکہ وہ ناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ دوسری جانب وائس نیوز کا کہنا ہے کہ وہ اپنے صحافی کی سلامتی اور خیریت کے حوالے سے امریکی وزارت خارجہ کے ساتھ رابطے میں ہے۔
مشرقی یوکرائن میں سیاسی و سماجی تنازہ اب مذہبی رنگ اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ اہم صنعتی شہر ڈونیٹسک میں روس نواز مزاحمت کار اور قوم پرست مذہبی بنیاد پر بھی منقسم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ڈونیٹسک کے گریک کیتھولک چرچ سے وابستہ ایک پادری ٹیخون کا کہنا ہے کہ وہ روسی صدر کے مشکور ہیں کہ یوکرائن کے خلاف جارحیت سے انہیں احساس ہوا کہ وہ یوکرائنی باشندے ہیں اور اِس عمل سے اُن کی شناخت کا عمل مزید مضبوط ہوا ہے۔ ٹیخون کا جارحیت سے مراد سے مشرقی یوکرائنی شہروں میں روس نواز مسلح افراد کا سرکاری عمارتوں پر قبضہ کرنا ہے۔