1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرائن کی حکومت مستعفی

عدنان اسحاق25 جولائی 2014

یوکرائن کے وزیر اعظم آرسينی یاتسینیُک اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ صدر پیٹرو پوروشینکو نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CifJ
تصویر: picture-alliance/dpa

یوکرائن کے وزیر اعظم آرنيسی یاتسینیُک اور ان کی کابینہ نے جمعرات کی شب مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ یاتسینیُک نے اس موقع پر کہا کہ ملک کو شدید بحران کا سامنا ہے اور اس دوران حکومتی ذمہ داریاں کئی مہینوں تک کے لیے معطّل ہو گئی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں یوکرائن کو ڈرامائی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یاتسینیُک کے بقول پارلیمان نے نہ تو سرگرم انداز میں کام کیا اور اس دوران نہ ہی کوئی اہم بل یا قانون منظور کیا جا سکا۔

یاتسینیک نے اپنے بیان میں کہا کہ پارلیمنٹ ملک کو درپیش توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے قانون سازی کرنے اور فوج کی مالی امداد بڑھانے جیسے اہم معاملات کے حوالے سے فیصلہ سازی میں ناکام رہی ہے۔ ’’میں حکومتی اتحاد میں پڑنے والی دڑاڑوں کے تناظر میں مستعفی ہونے کا اعلان کرتا ہوں‘‘۔

Arsenij Jazenjuk in Donetsk Ukraine 11.04.2014
تصویر: Reuters

يوکرائن ميں جمعرات کے روز دو مغرب نواز جماعتوں کی جانب سے مخلوط حکومت سے الگ ہونے کے ساتھ ہی حکومتی اتحاد بھی ٹوٹ گیا۔ معروف عالمی باکسر وطالی کلچکو کی جماعت ’اودار‘ ( Udar ) یعنی پنچ اور کٹر قوم پرست جماعت سوووبوڈا ( Svoboda ) نے نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد یاتسینیُک کی فادر لینڈ پارٹی نے پارلیمان میں اپنی اکثریت کھو دی تھی۔

یوکرائن کے صدر پیٹرو پوروشینکو نے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ’معاشرہ چاہتا ہے کہ حکومتی مشینری کو دوبارہ سے ری سیٹ کیا جائے‘‘۔ ان حالات میں صدر پوروشینکو کو اگلے تیس دنوں کے دوران نئے انتخابات کا اعلان بھی کرنا ہو گا۔

ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگلے انتخابات میں روس نواز سیاسی جماعتیں اکثریت حاصل کر سکتی ہیں۔ اس دوران کییف کی ایک عدالت وزرات انصاف کی جانب سے پیش کی جانے والی اس درخواست پر غور کر رہی ہے، جس میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگانے کی بات کی گئی ہے۔ کییف انتظامیہ کا موقف ہے کہ کمیونسٹ پارٹی مشرقی یوکرائن میں لڑنے والے باغیوں کو تعاون فراہم کر رہی ہے۔ اس کے بعد قوی امکان ہے کہ یوکرائن کی منتخب ہونے والی اگلی پارلیمان میں کمیونسٹ پارٹی موجود نہ ہو۔

یوکرائن کی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے جرمن تبصرہ نگار اُلرش کرؤکیل نے کہا کہ یاتسینیُک کی حکومت ملک کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا گزشتہ مہینوں کے دوران بحران کے خاتمے کے لیے کییف حکومت کی جانب سے تیار کی جانے والی تقریباً تمام پالیسیاں بے نتیجہ ہی رہیں اور اسی وجہ سے یاتسینیُک حکومت کے خاتمے کے اندازے لگا لیے گئے تھے۔

اس اچانک اعلان کے ساتھ ہی مشرقی یوکرائن میں جاری بحران مزید شدید ہو سکتا ہے اور ملائيشین ایئر لائنز کے طیارے کی تباہی کے واقعے کی تحقیقات کرنے والے بین الاقوامی ماہرین کے کام میں رکاوٹ بھی آ سکتی ہے۔ حکومت ختم ہونے کے باوجود بھی باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں شدید لڑائی جاری ہے اور کییف حکام کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں ڈونیٹسک اور اس کے اطراف میں چار فوجی ہلاک ہو گئے ہیں۔