1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرائن اور یورپی یونین کے درمیان اہم معاہدے کی توثیق

افسر اعوان16 ستمبر 2014

یوکرائنی اور یورپی پارلیمانوں نے تجارت اور سیاسی تعاون کے معاہدے کی توثیق کر دی ہے۔ ایک سنگ میل سمجھا جانے والا یہ معاہدہ یوکرائن کی یورپی یونین کی رکنیت کی جانب پہلا قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DDWO
تصویر: Vincent Kessler/Reuters

یورپی یونین اور یوکرائن کے درمیان تجارتی اور سیاسی تعاون کے اس سمجھوتے کی توثیق کییف میں یوکرائنی پارلیمان اور اسٹراس بُرگ میں یورپی پارلیمان کی جانب سے ایک ہی وقت میں کی گئی ہے۔ یوکرائنی صدر پیٹرو پورو شینکو نے اس معاہدے کی توثیق کو اپنے ملک کے لیے انتہائی اہم قرار دیا ہے۔

کییف میں ارکان پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے پوروشینکو کا یوکرائن میں احتجاجی مظاہروں اور ملک کے مشرقی حصے میں جاری خانہ جنگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’دوسری عالمی جنگ کے بعد سے کسی اور قوم نے یورپی یونین کے ساتھ شامل ہونے کے لیے اتنی زیادہ قیمت ادا نہیں کی جتنی یوکرائنی عوام نے کی ہے۔‘‘ یہ خطاب اسٹراس برگ میں یورپی پارلیمان کے جاری خطاب میں بذریعہ ویڈیو کانفرنس براہ راست سنوایا گیا۔ دونوں پارلیمانوں کی کارروائی ویڈیو لنک کے ذریعے دونوں ایوانوں میں دکھائی جا رہی تھی۔

یوکرائنی صدر پیٹرو پورو شینکو نے اس معاہدے کی توثیق کو اپنے ملک کے لیے انتہائی اہم قرار دیا ہے
یوکرائنی صدر پیٹرو پورو شینکو نے اس معاہدے کی توثیق کو اپنے ملک کے لیے انتہائی اہم قرار دیا ہےتصویر: Reuters//Valentyn Ogirenko

یورپی پارلیمان کے صدر مارٹن شُلز نے اس پیشرفت کو تاریخی اور جمہوریت کے لیے ’’شاندار لمحہ‘‘ قرار دیا۔ یورپی پارلیمان میں اس معاہدے کی بڑی اکثریت کے ساتھ توثیق کی گئی۔ 535 ارکان نے اس کے حق میں جبکہ 127 نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ ووٹنگ کے وقت 35 ارکان غیر حاضر تھے۔

مارٹن شُلز کا اس موقع پر مزید کہنا تھا کہ اس معاہدے کی توثیق ان افراد کے خوابوں کی تکمیل کے لیے ہے جنہوں نے یوکرائن میں جمہوریت کے لیے جدو جہد کی۔

یورپی یونین اور یوکرائن کے درمیان اس تجارتی اور سیاسی معاہدے کو اس وقت کے روس نواز صدر وکٹر یانوکووچ کی طرف سے رد کرنے کے بعد یوکرائن میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ جس کا نتیجہ رواں برس فروری میں یانوکووچ کی حکومت کے خاتمے کی صورت میں نکلا۔ بعد میں پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد روس نے یوکرائن کے مشرقی حصے میں جزیرہ نما کریمیا کو اپنے ساتھ شامل کر لیا تھا۔

ونوں پارلیمانوں کی کارروائی ویڈیو لنک کے ذریعے دونوں ایوانوں میں دکھائی جا رہی تھی
ونوں پارلیمانوں کی کارروائی ویڈیو لنک کے ذریعے دونوں ایوانوں میں دکھائی جا رہی تھیتصویر: Patrick Hertzog/AFP/Getty Images

یوکرائن اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے کی مخالفت کرنے والوں میں برطانوی سیاست دان نیگل فاراگے بھی شامل تھے۔ یورپی اتحاد کے مخالف فاراگے کا پارلیمان سے خطاب میں کہنا تھا، ’’اگر آپ روسی ریچھ کو چھڑی سے چھیڑیں گے تو پھر اس کے ردعمل پر حیران مت ہوں۔‘‘

یوکرائنی پارلیمان نے اپنے آج کے اجلاس میں باغیوں کے لیے عام معافی کے قانون کی منظوری بھی دی ہے۔ مخصوص سنگین جرائم کے علاوہ اس قانون کے تحت کییف حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کرنے والوں کو بھی معاف کر دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ بغاوت کے شکار علاقوں ڈونیٹسک اور لوہانسک کے عوام کو مزید انتظامی اختیارات دے دیے گئے ہیں۔ مزید یہ کہ روسی زبان بولنے والے علاقوں کو روسی سرحدی علاقوں کے ساتھ قریبی تعاون کی اجازت ہو گی۔

روس نواز علیحدگی پسندوں نے ابتدائی طور پر ان نئی حکومتی تجاویز پر شک و شبے کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ان نئے قوانین کا تفصیلی جائزہ لینے کا بھی اعلان کیا ہے۔