1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوٹرین پرولیپس یا رحم کے اسقاط کی شکار خواتین کے مسائل

کشور مصطفیٰ20 مارچ 2014

نیپال میں ’رحم کے اسقاط یا اس عضو کے نیچے گر جانے یا اپنی جگہ سے سرک جانے‘ کے واقعات کی بڑھتی ہوئی شرح اس ملک کی بار آور خواتین کی صحت کی خراب صورتحال کا ایک بڑا سبب ہے۔

https://p.dw.com/p/1BTAO
تصویر: Mobisante/Sailesh Chutani

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ہمالیہ کی ریاست نیپال میں نوجوان خواتین میں یوٹرین پرولیپس یا رحم کے اسقاط کے واقعات بہت زیادہ رونما ہوتے ہیں، جس کی وجہ جنسی امتیاز ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جنس اور جنسی شناخت سے متعلق پروگرام کی ڈائریکٹرمدھو ملہوترا نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا،"یہ وقت ہے، خواتین کی صحت سے متعلق اس مسئلے کو انسانی حقوق کے مسئلے کے تناظر میں دیکھنے کا"۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی 2011ء کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق نیپال میں ’رحم کے اسقاط یا اس عضو کے نیچے گر جانے یا اپنی جگہ سے سرک جانے‘ کے واقعات کی بڑھتی ہوئی شرح اس ملک کی بار آور خواتین کی صحت کی خراب صورتحال کا ایک بڑا سبب ہے۔ رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ بار آوری کی عمر والی ہر دس نیپالی خواتین میں سے ایک کو یوٹرین پرولیپس یا رحم کے اسقاط کے سنگین مسئلے کا سامنا ہے۔

GMF Klick! Fotowettbewerb 2011 Sisyphean Labour
حسمانی مشقت رحم کے سرک یا گرجانے کا سبب بن سکتی ہےتصویر: Daniela Elger

نیپال میں بہت کم خواتین کو صحت کی مناسب سہولیات میسر ہیں۔ یہ عورتیں بہت کم عمری میں ماں بن جاتی ہیں لیکن بچے کی پیدائش کے بعد انہیں جسمانی آرام کے لیے بہت کم وقت ملتا ہے کیونکہ انہیں کھیتوں میں کام کرنا ہوتا ہے۔ 2008ء میں نیپال کی سپریم کورٹ نے یوٹرین پرولیپس یا رحم کے اسقاط کے واقعات کو خواتین کے باز تخلیقی یا دوبارہ ماں بننے کے فطری حق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے حکومت کو احکامات جاری کیے تھے کہ وہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات کرے۔ اس کے جواب میں حکومت نے یوٹرین پرولیپس یا رحم کے اسقاط کی شکار چند خواتین کے بذریعہ جراحی علاج پر آنے والے اخراجات کے لیے فنڈز دینے کا اعلان کیا تھا۔

تاہم خواتین کی صحت کے اس سنگین مسئلے کے بارے میں مہم چلانے والے عناصر کا کہنا ہے کہ یوٹرین پرولیپس یا رحم کے اسقاط کا حل جراحی نہیں ہے۔ نیپال کی ایک ڈاکٹر اُپریتی کا اس بارے میں کہنا ہے، "یہ امر نیپال کے لیے شرمندگی کا باعث ہے کہ 21 ویں صدی میں نوجوان خواتین کی اتنی بڑی تعداد صحت کے اس مسئلے سے دوچار ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسی خواتین کی تعداد سے متعلق اصل قومی اعداد و شمار اب تک میسر نہیں ہیں۔

Frauen in West Nepal
رحم کے اسقاط کی شکار خواتین کو سیدھا کھڑے ہونے میں بھی بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہےتصویر: DW/Bijoyeta Das

ایک اندازے کے مطابق ماں بننے اور بارآوری کی متحمل خواتین کے لیے صحت کی سہولیات کی کمی کے سبب نیپال میں 1.4 ملین خواتین یوٹرین پرولیپس یا رحم کے اسقاط کا شکار ہیں۔ یہ خواتین نہ صرف جسمانی طور پر اس تکلیف دہ صورتحال کا شکار ہیں بلکہ انہیں شدید ذہنی اور جذباتی دباؤ کا بھی سامنا ہے۔ نیپالی معاشرے میں ایسی عورتوں کو الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے اور اکثر کیسز میں انہیں خاندان اور برادری سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات زیادہ تر دیہی علاقوں میں رونما ہوتے ہیں۔

ماہرین صحت کے مطابق یوٹرین پرولیپس یا رحم کے اسقاط کی وبا کی متعدد وجوہات ہیں۔ ان میں ناقص غذا، بہت کم عمری میں شادی اور ماں بننے کا عمل، بہت کم وقفے سے تسلسل کے ساتھ بچوں کی پیدائش اور دوران حمل اور بچے کی پیدائش کے بعد بہت بھاری جسمانی مشقت اہم ترین وجوہات ہیں۔

یوٹرین پرولیپس یا رحم کے اسقاط کی شکار خواتین کو پیٹ اور کمر درد کے ساتھ ساتھ جنسی عمل کے دوران دشواریوں کا بھی سامنا رہتا ہے اور ایسی خواتین ہر طرح کی انفیکشن یا عفونت کا شکار ہو سکتی ہیں۔ ایسی خواتین کو روز مرہ کے کام کاج، چلنے، بیٹھنے اور محنت طلب کام میں بھی شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔