یونانی ’رابن ہُڈ‘ کے لیے کام آسان نہیں ہو گا، تبصرہ
26 جنوری 2015ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار سپیروس موسکووو لکھتے ہیں کہ یونانی ’رابن ہڈ‘ الیکسِس سپراس کی سیاسی زندگی کا مشکل ترین دور شروع ہو گیا ہے اور قبل از انتخابات کیے گئے وعدے نبھانا اُن کے لیے آسان نہیں ہو گا۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد سپراس نے کہا:’’نہ ہی ہم اپنے ساتھی ممالک کو اشتعال دلا کر اُن کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کریں گے اور نہ ہی اُن کے دباؤ میں آ کر اُن کے آگے جھکیں گے۔‘‘
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کے مطابق جہاں تک حکومت چلانےکی بات ہے تو سپراس اِس شعبے میں بالکل ایک کورے کاغذ کی طرح ہیں۔ مزید یہ کہ انتخابات جیتنے اور بہت سوں کے لیے امید کی کرن سپراس کو بچتی اقدامات کے خلاف اپنی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانا قدرے مشکل ہو گا۔
سپیروس موسکووو مزید لکھتے ہیں کہ مالی مشکلات کے شکار ملک یونان کا دارومدار ابھی بھی عالمی مالیاتی ادارے، یورپی مرکزی بینک اور یورپی کمیشن پر ہے اور یونانی عوام کی ایک مخصوص تعداد اِن تینوں اداروں کو ناپسند بھی کرتی ہے کیونکہ اُن کا موقف ہے کہ یہ تینوں ادارے یونان پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس صورتحال میں سیریزا کی حکومت اپنے ساتھی ممالک کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی کیونکہ اِن کے بغیر اِس ملک کو انتہائی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سپیروس موسکووو کے بقول:’’موجودہ حالات میں سیریزا قرضے معاف کرانے کے لیے مذاکراتی عمل کا ایک نیا دور شروع کر سکتی ہے ورنہ یہ جماعت بحران کے شکار اپنے عوام سے کیے گئے وعدے وفا نہیں کر سکے گی۔‘‘
یونان کے گزشتہ کئی حکومتی اتحادوں کی اصل طاقت سابق وزیر اعظم انتونس سماراس کی قدامت پسند ’نیئا ڈیموکراٹیا‘‘ اور سوشل ڈیموکریٹس کی ’’ PASOK‘‘ نامی جماعتیں رہی ہیں۔ اور یہی دونوں جماعتیں گزشتہ تقریباً ایک دہائی کے دوران یونان کے اقتصادی شعبے میں ہونے والی بد انتظامی اور ملک میں بدعنوانی کی ذمہ دار بھی ہیں۔ عوام نے اتوار پچیس جنوری کو ہونے والے انتخابات میں اِن دونوں کو مسترد کر دیا ہے۔ اب سیریزا نے بدعنوانی اور ٹیکس چوری کو کم کرنے کے علاوہ سرکاری شعبوں میں اصلاحات لانے جیسے ادھورے کاموں کو مکمل کرنے کا بھی بیڑا اٹھایا ہے۔ سیاسی میدان میں نا تجربہ کار جماعت سیریزا کو اب مسائل کی اس انتہائی الجھی ہوئی گُھّتی کو سُلجھانا ہے۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کے بقول یہ بات یونان اور یورپی یونین دونوں کے حق میں ہو گی کہ برسلز اور دیگر تمام ساتھی ممالک مشتعل نہ ہوں اور یوں نئی ایتھنز حکومت کے ساتھ تعلقات منقطع نہ کریں۔