یورپی یونین میں خون کے عطیات: اسکریننگ کا مطالبہ
29 جولائی 2014ایک تازہ طبی تحقیق کے سائنسی جریدے The Lancet میں شائع ہونے والے نتائج کے مطابق انگلینڈ میں خون عطیہ کرنے والے افراد کے خون کے سوا دو لاکھ نمونوں کے تفصیلی مطالعے سے پتہ چلا کہ ان میں سے قریب 80 نمونوں میں ہیپاٹائٹس ای کا وائرس موجود تھا۔
یہ وائرس جگر کو متاثر کرنے والی ہیپاٹائٹس کی بیماری کی ایک خاص قسم کی وجہ بنتا ہے۔ کئی ماہرین کے لیے پریشانی کی بات یہ تھی کہ یہ وائرس اتنی بڑی تعداد میں انگلینڈ میں خون عطیہ کرنے والے شہریوں کے خون کے نمونوں میں پایا گیا۔ بنیادی طور پر یہ وائرس اکثر ترقی پذیر ملکوں میں پایا جاتا ہے۔
’دی لَینسٹ‘ نامی میڈیکل ریسرچ میگزین کے مطابق ہیپاٹائٹس کا یہ مخصوص وائرس آلودہ پانی یا متاثرہ انسانوں اور جانوروں سے صحت مند انسانوں میں منتقل ہو سکتا ہے۔ اس وائرس سے متاثرہ افراد کا عطیہ کردہ خون انگلینڈ میں جن مریضوں کو لگایا گیا، ان میں سے قریب چالیس فیصد ہیپاٹائٹس ای کا شکار ہو گئے۔
انگلینڈ میں صحت عامہ کے شعبے میں خون کے ذریعے وائرس کی منتقلی پر تحقیق کرنے والے یونٹ کے چیف ریسرچر رچرڈ ٹیڈر Richard Tedder کے مطابق انگلینڈ کی آبادی میں ہیپاٹائٹس کے جینوٹائپ تھری قسم کے وائرس کی موجودگی عام ہے۔ ان کے بقول ان متاثرہ افراد میں ایسے شہری بھی شامل ہیں، جو باقاعدگی سے خون عطیہ کرتے ہیں۔
رچرڈ ٹیڈر کا کہنا ہے کہ ماہرین کا اندازہ ہے کہ جب یہ مطالعاتی جائزہ مکمل کیا گیا، اسی سال انگلینڈ میں اس وائرس نے مجموعی طور پر 80 ہزار سے لے کر ایک لاکھ تک افراد کو متاثر کیا۔ ان کے بقول اس طرح کے ہیپاٹائٹس وائرس کی موجودگی ماضی میں سویڈن اور جرمنی سمیت دیگر یورپی ملکوں میں بھی ثابت ہو چکی ہے۔
اس پس منظر میں یورپ میں اس وائرس کے انتقال خون کے ذریعے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر یہ مطالبے زور پکڑتے جا رہے ہیں کہ خون عطیہ کرنے والے افراد کے اس وائرس سے محفوظ ہونے کی تصدیق کے لیے ان کی اسکریننگ شروع کی جائے۔
اس کے برعکس The Lancet ہی میں اس بارے میں شائع ہونے والے ایک تبصرے میں یہ جائزہ مکمل کرنے والے ماہرین کی طرف سے لکھا گیا ہے کہ انتقال خون کے وقت ہیپاٹائٹس کے وائرس کا پتہ چلانے کے لیے متعلقہ ڈونر کی اسکریننگ کی ضرورت تو ہے لیکن یہ خطرہ اتنا کم ہے کہ فوری طور پر یورپی سطح پر اس اسکریننگ کے آغاز کی اشد ضرورت نہیں ہے۔