1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی خلائی گاڑی بلآخر سیارچے پر اتر گئی

عاطف توقیر13 نومبر 2014

یورپی خلائی گاڑی نے چار بلین میل کا سفر طے کرتے ہوئے ایک سیارچے پر اتر کر ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ یہ خلائی جہاز سیارچے کی سطح سے ٹکرانے کے بعد بلند ضرور ہوا، مگر پھر کامیابی کے ساتھ حالتِ سکون میں آگیا۔

https://p.dw.com/p/1Dm8t
تصویر: ESA via Getty Images

کائنات کی تخلیق سے متعلق اہم سوالات کا جواب ڈھونڈنے نکلا یہ یورپی خلائی مشن اربوں کلومیٹر کی مسافت طےکرتا ہوا اور گزشتہ کئی ماہ سے اس تیز رفتار سیارچے کے گرد چکر کاٹتا ہوا، بلآخر واشنگ مشین کے حجم کی گاڑی کو سیارچے کی سطح پر اتارنے میں کامیاب رہا۔ موصول ہونے والی ابتدائی ڈیٹا کے مطابق اترتے ہوئے یہ خلائی گاڑی سیارچے کی سطح سے آہستگی سے ٹکرائی دوبارہ کچھ بلند ہوئی، تاہم پھر سطح پر کامیابی سے رک گئی۔

اس مشن کو ایک دہائی قبل روانہ کیا گیا تھا اور اس سیارچے تک پہنچنے، اس کے مدار میں چکر کاٹنے اور آخر میں اس کی سطح پر اترنے کے اس تمام عمل میں غیرمعمولی باریک بینی اور ٹھیک ٹھیک عوامل و اقدامات درکار تھے۔ سائنس دانوں کے مطابق اس تمام عمل میں ایک معمولی غلطی اس مشن کی مکمل تباہی ثابت ہو سکتی تھی۔

اس مشن کے سربراہ اشٹیفان الامیک کے مطابق یہ خلائی جہاز نہایت احسن انداز سے سیارچے کی سطح پر اترا اور غیرمتوقع طور پر سطح سے لگنے کے بعد کچھ بلند ہونے کے باوجود محفوظ رہا۔ مسکراتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’آج ہم اس سیارچے پر ایک مرتبہ نہیں بلکہ ممکنہ طور پر دو مرتبہ اترے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تھرسٹرز جن کا کام سیارچے کی سطح کی جانب بڑھتے ہوئے اس خلائی جہاز کی رفتار کو قابو میں رکھنا تھا اور ہارفونز جن کا کام سطح پر اترتے ہی، تیز دھار کیلیں اس سیارچے کی سطح پر گاڑ دینا تھے، دونوں مکمہ طور پر ٹھیک ٹھیک انداز میں کام کرنے میں ناکام رہے، جس کی وجہ سے یہ خلائی جہاز سیارچے کی سطح سے ٹکرانے کے بعد کچھ اچھلا اور پھر سطح سے لگ کر ساکت ہوا۔

Raumfahrt ESA Weltraumsonde Rosetta - Landeeinheit Philae
یہ خلائی جہاز گزشتہ کئی ماہ سے اس سیارچے کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا ہےتصویر: ESA via Getty Images

سائنس دان اب اس بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس سقم کی وجوہات کیا رہیں اور کیا سیارچے پر اترنے والا یہ خلائی جہاز اپنی جگہ پر ساکت حالت میں رہ پائے گا یا نہیں۔ مگر بتایا گیا ہے کہ اس خلائی جہاز میں موجود زیادہ تر آلات درست انداز میں کام کر رہے ہیں اور جلد ہی اس جہاز سے ڈیٹا کی ترسیل شروع ہونے کی امید کی جا رہی ہے۔

جرمن شہر ڈارم اشٹٹ میں اس مشن کے کنٹرول سینٹر میں موجود الامیک نے بتایا کہ جلد ہی اس بابت حقائق بہت حد تک واضح ہو جائیں گے۔

اس مشن کی نگرانی کرنے والی ٹیم نے سیارچے کے گرد چکر کاٹنے والے بڑے جہاز سے سیارچے پر اس چھوٹی خلائی گاڑی کو اتارنے کے سات گھنٹے کے صبرآزما اور اعصاب شکن عمل کا سامنا کیا۔ بتایا گیا ہے کہ خلائی جہاز روزیٹا اس سیارچے تک رواں برس جنوری میں پہنچا اور اس کے گرد چکر لگانا شروع کر دیا۔ اس کے بعد سے یہ جہاز اور سیارچہ /Churyumov-Gerasimenko P67 اکتالیس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ایک ساتھ سفر کر رہے ہیں اور اس خلائی جہاز سے 100 کلوگرام کی خلائی گاڑی فیلائی بدھ کے روز سیارچے پر اتاری گئی۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق عالمی وقت کے مطابق یہ خلائی گاڑی چار بج کر تین منٹ پر اس خلائی جہاز پر جا رکی۔ تاہم اس دوراں زمین سے ساڑھے تین ملین میل دور اس سیارچے اور خلائی جہاز سے طویل فاصلے کی وجہ سے زمین پر قائم کنٹرول سینٹر میں بیٹھے سائنس دان اور محقق محنت کے ساتھ ساتھ ایک خوش قسمتی کے طلب گار بھی دکھائی دیے۔ محققین کے مطابق اس خلائی جہاز سے روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے ان ڈیٹا سگنلز کو زمین تک پہنچنے میں تقریباﹰ 45 منٹ کا وقت درکار ہوتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ اس جہاز کو احکامات ریئل ٹائم نہیں دیے جا سکتے تھے۔ اس سیارچے کی ماہیت اور نوعیت سے اس نظام شمسی کی تخلیق کے ساتھ ساتھ اس بات کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی کہ آیا زمین پر پانی کی موجودگی ایسے ہی کسی سیارچے کے زمین سے ٹکرانے کا نتیجہ تھی، یا محرکات دراصل کچھ اور تھے۔