یورپ میں پرندوں کی تعداد میں ڈرامائی کمی
5 نومبر 2014اس جائزے کے مطابق پرندوں کی تعداد میں یہ کمی یورپ میں پرندوں کے مجموعی ذخیرے میں تقریباً بیس فیصد کمی کے مترادف ہے۔ خاص طور پر عام پرندوں کی چھتیس اَقسام میں نظر آنے والی یہ ڈرامائی کمی زراعت کے جدید طریقوں کے ساتھ ساتھ اُن قدرتی علاقوں کی تباہی کی وجہ سے بھی ہوئی ہے، جو ان پرندوں کا مسکن ہوا کرتے تھے۔
اس جائزے کی تیاری میں پرندوں کے تحفظ کی رائل سوسائٹی نے بھی معاونت فراہم کی ہے، جو کہ برطانیہ میں اپنی نوعیت کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ اس سوسائٹی سے وابستہ رچرڈ گریگری نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ’یورپ بھر میں پرندوں کی جانب سے یہ ایک بڑی تنبیہ ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جس طریقے سے ہم آج کل اپنے ماحول کا انتظام چلا رہے ہیں، پرندوں کی بہت سی جانی پہچانی اَقسام کے لیے زندہ رہنا کافی مشکل ہو گا‘۔ اُنہوں نے کہا کہ پرندوں کی تعداد میں کمی کے اِس رجحان کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ بلا امتیاز تمام پرندوں اور اُن کے رہن سہن کے علاقوں کو قانونی اور انتظامی اعتبار سے تحفظ فراہم کیا جائے۔
اس جائزے سے یہ پتہ چلا کہ پرندوں کی تعداد میں نوّے فیصد کمی چڑیاؤں اور تیتروں جیسے ایسے پرندوں کے ہاں دیکھنے میں آئی، جنہیں وہ تحفظ حاصل نہیں ہے، جو بقا کے خطرے سے دوچار پرندوں کی بہت سی اَقسام کو حاصل ہے۔
دوسری جانب اس جائزے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سفید بگلے جیسے جن نایاب پرندوں کو تحفظ حاصل ہے، اُن کی تعداد میں حالیہ برسوں کے دوران اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اس جائزے کی تیاری کے لیے یورپ کے پچیس ملکوں میں پرندوں کی 144 اَقسام کے بارے میں تفصیلات جمع کی گئیں۔ 1980ء سے لے کر 2009ء تک جاری رہنے والی اس تحقیق کے سلسلے میں زیادہ تر کام رضاکارانہ طور پر خدمات فراہم کرنے والوں نے انجام دیا۔
یہ جائزہ برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایگزیٹر کے رچرڈ اِنگر کی نگرانی میں مرتب کیا گیا۔ اِنگر نے بتایا کہ پرندوں کی عام اَقسام کی تعداد میں کمی اس لیے بھی تشویشناک ہے کہ یہ وہ پرندے ہیں، جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔ یہ عام پرندے فصلوں اور پھل دار درختوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کی روک تھام میں مدد دیتے ہیں اور پودوں کے بیج ایک سے دوسری جگہ پہنچانے میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اسی طرح مُردار کھانے والے پرندے قدرتی ماحول کو صاف رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ پچاس کے عشرے میں چین میں نئی کمیونسٹ قیادت نے یہ اندازے لگاتے ہوئے کہ ایک عام چڑیا سال میں ساڑھے چار کلوگرام اناج کھا جاتی ہے اور یہ کہ ہر ایک ملین ہلاک کر دی جانے والی چڑیاؤں کے بدلے میں ساٹھ ہزار انسانوں کو خوراک فراہم کی جا سکتی ہے، کروڑہا چڑیاؤں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تاہم ایک ہی عشرے بعد جب قحط کی سی صورتِ حال پیدا ہو گئی تو چینی حکام کو اپنے فیصلے کے غلط ہونے کا اندازہ ہوا اور اُنہیں یہ پتہ چلا کہ یہ پرندہ فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کو تلف کرنے میں کتنا اہم کردار ادا کرتا تھا۔ تب ماؤ زےتنگ کے حکم پر چڑیاؤں کو مارنے کی مہم ختم کر دی گئی تھی۔