یورپ میں ’دُلہن برائے فروخت‘
26 مئی 2015اٹھارہ سالہ کلارا بالوگووا بتاتی ہے کہ شادی کے لیے جب اُس نے سلوواکیہ سے انگلینڈ کا ہزاروں کلومیٹر طویل سفر کیا تو اُس کا حمل آخری ہفتوں میں تھا اور وہ بہت مفلسی کی حالت میں تھی۔کلارا کو علم تھا کہ اُس کا تیئس سالہ پاکستانی شوہر اُس سے صرف اس لیے شادی کر رہا ہے کہ وہ یورپی یونین کی ایک رکن ریاست کی شہری ہے۔ یہ شادی اس لیے طے کی گئی تھی تاکہ اِس پاکستانی نوجوان کو یورپ میں رہائش کا اجازت نامہ مل جائے۔ شادی کے بدلے میں بالوگووا کو برطانیہ میں مناسب رہائش اور شاید کچھ رقم دینے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ بتاتی ہے کہ برطانیہ پہنچنے کے کچھ دنوں کے بعد ہی اُسے مانچسٹر سے گلاسگو کے ایک فلیٹ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ وہ بتاتی ہے، ’’وہ مجھے گھر سے نکلنے نہیں دیتا تھا، وہ کہتا تھا کہ یہاں باہر جانا ممکن نہیں۔‘‘ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دینے کے دوران اس نے بتایا، ’’ہم ہر ہفتے صرف ایک مرتبہ مل کر باہر جاتے تھے‘‘۔
بالوگووا کی یہ کہانی مشرقی یورپ کے غریب ممالک سے تعلق رکھنے والی ان درجنوں لڑکیوں کی آب بیتیوں میں سے ایک ہے، جنہیں شادیوں اور گھمانے پھرانے کا بہانہ دے کر مغربی یورپ لایا جاتا ہے۔ حکام کے مطابق ایسی شادیاں کرنے والے زیادہ تر مردوں کا تعلق ایشیا یا افریقہ سے ہوتا ہے اور وہ ان لڑکیوں کو شادی کے بدلے بھاری رقوم بھی ادا کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کچھ گروپس بھی کام کر رہے ہیں اور ایسی شادیوں کا انتظام کرانے پر انہیں بھی مالی فائدہ ہوتا ہے۔ تاہم زیادہ تر واقعات میں لڑکیاں ہی نقصان اٹھاتی ہیں کیونکہ آخر میں وہ کسی اجنبی ملک میں تنہا رہ جاتی ہیں۔ حکام کے مطابق ان میں سے زیادہ تر لڑکیوں کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ایسے کرنے سے انہیں کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔
برطانیہ کی جانب سے سرحدوں کی نگرانی سخت کرنے کے بعد انسانی اسمگلنگ کے اس نئے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ برطانیہ میں انسداد جرائم کے ملکی ادارے کے مطابق برطانیہ اُن چند ممالک میں سے ایک ہے، جہاں مشرقی یورپ سے لڑکیاں لا کر شادی کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ دوسری جانب یورپی پولیس کے محکمے ’یورو پول‘ نے گزشتہ برس اسے ایک ہنگامی مسئلے کے طور پر شناخت کیا تھا۔ لٹویا میں تو یہ مسئلہ اس قدر سنگین ہو چکا ہے کہ حکومت کو لڑکیوں کو روکنے کے لیے ایک ہنگامی پروگرام تک شروع کرنا پڑا۔
برطانوی حکام کے مطابق ملک میں ہر سال مقامی شہریوں سے جعلی شادی یا پیپر میرج کے ہزاروں واقعات ہوتے ہیں اور اس کے مقابلے میں مشرقی یورپ سے لائی جانے والی لڑکیوں سے شادی کرنے کے واقعات قدرے کم ہیں۔ اس سلسلے میں ایسے افراد زیادہ تر اسکاٹ لینڈ جانا پسند کرتے ہیں، جہاں کوئی بھی لڑکی 16 سال کی عمر میں ہی والدین کی اجازت کے بغیر شادی کر سکتی ہے۔ سماجی تنظیموں کے مطابق مشرقی یورپ سے اس مقصد کے لیے لائی جانے والی زیادہ تر لڑکیاں کلارا بالوگووا کی طرح انتہائی غریب ہوتی ہیں جبکہ اکثر غیر تعلیم یافتہ بھی ہوتی ہیں اور وہ مغربی یورپ میں رہنے کے لیے شادی کرنے تک پر راضی ہو جاتی ہیں۔