1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ میں ’دُلہن برائے فروخت‘

عدنان اسحاق26 مئی 2015

سلوواکیہ کی شہری کلارا بالوگووا کو علم تھا کہ وہ جس سے شادی کرنے جا رہی ہے وہ اس سے محبت نہیں کرتا اور نہ ہی اُسے اُس کے ہونے والے بچے میں کوئی دلچسپی ہے، لیکن پھر بھی وہ ایسا کرنے پر مجبور ہو گئی۔

https://p.dw.com/p/1FWQG
تصویر: Fotolia/tinastar

اٹھارہ سالہ کلارا بالوگووا بتاتی ہے کہ شادی کے لیے جب اُس نے سلوواکیہ سے انگلینڈ کا ہزاروں کلومیٹر طویل سفر کیا تو اُس کا حمل آخری ہفتوں میں تھا اور وہ بہت مفلسی کی حالت میں تھی۔کلارا کو علم تھا کہ اُس کا تیئس سالہ پاکستانی شوہر اُس سے صرف اس لیے شادی کر رہا ہے کہ وہ یورپی یونین کی ایک رکن ریاست کی شہری ہے۔ یہ شادی اس لیے طے کی گئی تھی تاکہ اِس پاکستانی نوجوان کو یورپ میں رہائش کا اجازت نامہ مل جائے۔ شادی کے بدلے میں بالوگووا کو برطانیہ میں مناسب رہائش اور شاید کچھ رقم دینے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ بتاتی ہے کہ برطانیہ پہنچنے کے کچھ دنوں کے بعد ہی اُسے مانچسٹر سے گلاسگو کے ایک فلیٹ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ وہ بتاتی ہے، ’’وہ مجھے گھر سے نکلنے نہیں دیتا تھا، وہ کہتا تھا کہ یہاں باہر جانا ممکن نہیں۔‘‘ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دینے کے دوران اس نے بتایا، ’’ہم ہر ہفتے صرف ایک مرتبہ مل کر باہر جاتے تھے‘‘۔

Heiraten in Tadschikistan
تصویر: DW/G.Fashutdinov

بالوگووا کی یہ کہانی مشرقی یورپ کے غریب ممالک سے تعلق رکھنے والی ان درجنوں لڑکیوں کی آب بیتیوں میں سے ایک ہے، جنہیں شادیوں اور گھمانے پھرانے کا بہانہ دے کر مغربی یورپ لایا جاتا ہے۔ حکام کے مطابق ایسی شادیاں کرنے والے زیادہ تر مردوں کا تعلق ایشیا یا افریقہ سے ہوتا ہے اور وہ ان لڑکیوں کو شادی کے بدلے بھاری رقوم بھی ادا کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کچھ گروپس بھی کام کر رہے ہیں اور ایسی شادیوں کا انتظام کرانے پر انہیں بھی مالی فائدہ ہوتا ہے۔ تاہم زیادہ تر واقعات میں لڑکیاں ہی نقصان اٹھاتی ہیں کیونکہ آخر میں وہ کسی اجنبی ملک میں تنہا رہ جاتی ہیں۔ حکام کے مطابق ان میں سے زیادہ تر لڑکیوں کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ایسے کرنے سے انہیں کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔

برطانیہ کی جانب سے سرحدوں کی نگرانی سخت کرنے کے بعد انسانی اسمگلنگ کے اس نئے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ برطانیہ میں انسداد جرائم کے ملکی ادارے کے مطابق برطانیہ اُن چند ممالک میں سے ایک ہے، جہاں مشرقی یورپ سے لڑکیاں لا کر شادی کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ دوسری جانب یورپی پولیس کے محکمے ’یورو پول‘ نے گزشتہ برس اسے ایک ہنگامی مسئلے کے طور پر شناخت کیا تھا۔ لٹویا میں تو یہ مسئلہ اس قدر سنگین ہو چکا ہے کہ حکومت کو لڑکیوں کو روکنے کے لیے ایک ہنگامی پروگرام تک شروع کرنا پڑا۔

Brunei Hochzeit des Kronprinzen Abdul Malik
تصویر: Reuters/O. Harris

برطانوی حکام کے مطابق ملک میں ہر سال مقامی شہریوں سے جعلی شادی یا پیپر میرج کے ہزاروں واقعات ہوتے ہیں اور اس کے مقابلے میں مشرقی یورپ سے لائی جانے والی لڑکیوں سے شادی کرنے کے واقعات قدرے کم ہیں۔ اس سلسلے میں ایسے افراد زیادہ تر اسکاٹ لینڈ جانا پسند کرتے ہیں، جہاں کوئی بھی لڑکی 16 سال کی عمر میں ہی والدین کی اجازت کے بغیر شادی کر سکتی ہے۔ سماجی تنظیموں کے مطابق مشرقی یورپ سے اس مقصد کے لیے لائی جانے والی زیادہ تر لڑکیاں کلارا بالوگووا کی طرح انتہائی غریب ہوتی ہیں جبکہ اکثر غیر تعلیم یافتہ بھی ہوتی ہیں اور وہ مغربی یورپ میں رہنے کے لیے شادی کرنے تک پر راضی ہو جاتی ہیں۔