یمنی تنازعے کے حل کی کوششوں کو دھچکا
25 مئی 2015خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یمنی تنازعے کے پرامن حل کے لیے یہ کانفرنس انتہائی اہمیت کی حامل تھی، کیوں کہ اس میں اس تنازعے کے تمام فریقوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اتوار کے روز اے ایف پی سے بات چیت میں کہا کہ مجوزہ طور پر جمعرات کے روز سے جنیوا میں شروع ہونے والی یہ کانفرنس اب عارضی طور پر ملتوی کی جا رہی ہے۔
اس اجلاس کے التوا کو یمن میں قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کی کوششوں کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل مختلف یمنی فریقین کی جانب سے ایسے اشارے موصول ہوئے تھے کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اس مسلح تنازعے کے نتیجے میں مارچ سے اب تک دو ہزار افراد مارے جا چکے ہیں، جب کہ لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق جلاوطن یمنی صدر منصور ہادی واضح انداز میں کہہ چکے ہیں کہ وہ ایسی کسی کانفرنس میں صرف اسی صورت میں شریک ہوں گے، جب حوثی باغی اپنے زیرقبضہ علاقوں سے نکل نہیں جاتے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی جانب سے اس کانفرنس میں شرکت کے لیے مدعو کیے جانے پر اس عالمی ادارے کے سربراہ بان کی مون کو ایک جوابی مراسلہ تحریر کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ حوثی باغیوں کے مقبوضہ علاقے چھوڑنے تک وہ کسی امن بات چیت کا حصہ نہیں بنیں گے۔
منصور ہادی مارچ کے آخر میں اس وقت ملک چھوڑ کر سعودی عرب فرار ہو گئے تھے، جب ایرانی حمایت یافتہ شیعہ حوثی باغیوں نے جنوبی شہر عدن کی جانب پیش قدمی شروع کر دی تھی۔
اتوار کے روز ریاض میں اقوام متحدہ کے مندوب اسماعیل ولد شیخ محمد برائے یمن سے بات چیت میں ایک مرتبہ پھر اپنے اسی مطالبے کا اعادہ کیا۔ جلاوطن رہنما نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی یمن کے حوالے سے قرارداد 2216 کی مکمل پاس داری پر زور دیا۔
یہ بات اہم ہے کہ اس قرارداد میں حوثی باغیوں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنے زیرقبضہ علاقوں سے نکل جائیں اور فوج سے چھینے گئے تمام ہتھیار واپس کریں، جب کہ ریاستی اداروں کا قبضہ بھی ختم کریں۔
جلاوطن یمنی حکومت کا کہنا ہے کہ کسی بھی طرح کی امن بات چیت سے قبل اس قرارداد پر مکمل عمل درآمد کیا جانا ضروری ہے۔