1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمنی تنازعے کا حصہ بنا جائے یا نہیں، پاکستان تذبذب میں

عاطف بلوچ1 اپریل 2015

یمن میں حوثی باغوں کے خلاف سعودی اتحاد کا حصہ بنا جائے یا اس تنازعے دے دور رہا جائے؟ یہ ایک ایسا پیچیدہ معاملہ ہے، جس کا فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان ایک وسوسے میں مبتلا ہو چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/1F0Uh
تصویر: Reuters/A. Abdallah Dalsh

پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ملک ہے، جو جوہری طاقت کا حامل ہے۔ پاکستانی فوج گزشتہ کئی عشروں سے سعودی عرب کی عسکری مشاورت کا کام کر رہی ہے، جس کے عوض پاکستان نے اس خلیجی ملک سے جہاں رعایتی نرخوں پر تیل حاصل کیا وہیں خطیر مالی امداد بھی وصول کرتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم نواز شریف کے سعودی شاہی گھرانے سے قریبی تعلقات بھی ہیں۔

اس تناظر میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان اس سعودی اتحاد کا حصہ بن جائے گا، جو یمن میں ایران نواز شیعہ حوثی باغیوں کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے۔ تاہم حکومت پاکستان فی الحال اس سعودی اتحاد کا حصہ بننے سے کترا رہی ہے۔ اس کی وجہ ہمسایہ ملک ایران ہے، جو یمن میں حوثیوں کے خلاف جاری ان جنگی کارروائیوں کی سخت مذمت کر رہا ہے۔

اسلام آباد حکومت اگرچہ واشگاف انداز میں کہہ چکی ہے کہ سعودی عرب کی سالمیت اور خود مختاری کے دفاع کے لیے اس کی افواج تیار ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ایسے کسی تنازعے کا حصہ نہیں بننا چاہتی، جو مسلم دنیا کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان نے انکار کیا ہے کہ اس نے اپنے فوجی یا عسکری سازوسامان یمن میں روانہ کیے ہیں۔

Pakistan Militär Patrouille Peschawar
آباد حکومت کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی سالمیت اور خود مختاری کے دفاع کے لیے اس کی افواج تیار ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/B. Arbab

یہ امر اہم ہے کہ یمن کے تنازعے کی وجہ سے سنی عرب ممالک کے اتحاد اور ایران کی شیعہ حکومت کے مابین تناؤ میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا بیس فیصد حصہ شیعہ کمیونٹی پر مشتمل ہے اور یہاں بھی شیعہ سنی فرقہ واریت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے پرانے تعلقات

اسلام آباد کے ایک تجزیہ نگار اور مصنف عمر جاوید کہتے ہیں کہ پاکستان کو یمن کے تنازعے میں شریک ہونے سے ہوشیار رہنا چاہیے کیونکہ اس طرح ملکی سطح پر سنی جنگجو گروہوں کو بھی تقویت حاصل ہو گی۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگرچہ یمن کا تنازعہ بظاہر فرقہ واریت پر مبنی نہیں ہے لیکن پاکستان میں اس کی فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہی تشریح کی جا رہی ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ اسلام آباد کی طرف سے اس تنازعے کا حصہ بننے کی وجہ سے پاکستان میں آباد ایران مخالف کمیونٹی اور ایران کے حامی شیعہ اسے شیعہ اور سنی کے مابین تنازعے کی صورت میں دیکھیں گے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے مابین عسکری تعاون کا سلسلہ ساٹھ کی دہائی میں اس وقت شروع ہوا تھا، جب پاکستانی فوج نے سعودی فضائیہ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسی دور میں جب 1969ء میں جنوبی یمن نے سعودی عرب پر چڑھائی شروع کی تھی تو پاکستانی پائلٹوں نے اس کارروائی کو ناکام بنا دیا تھا۔ اس کے بعد بھی ان دونوں ممالک کے مابین عسکری حوالوں سے تعاون جاری رہا۔ 80 کی دہائی میں ریاض اور واشنگٹن نے پاکستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے سابقہ سوویت یونین کے خلاف مسلح کارروائیوں میں شریک افغان مجاہدین کی دل کھول کر مدد کی۔

پاکستان کی طرف سے اس تعاون کی نتیجے میں سعودی عرب نے پاکستان کو کم داموں پر تیل کی فراہمی جاری رکھی جبکہ ساتھ ہی آسان اقساط پر قرضے اور امدادی رقوم عنایت کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ ابھی گزشتہ برس ہی سعودی عرب نے پاکستان کو 1.5 بلین ڈالر کی خطیر رقم تحفتاً دے دی تھی۔

Pakistan Nawaz Sharif
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے سعودی شاہی گھرانے سے قریبی تعلقات ہیںتصویر: Getty Images/S. Gallup

یمن تنازعے کا حصہ بننا کیا ضروری ہے؟

اب وقت بدل چکا ہے۔ پاکستانی میڈیا اس مرتبہ اس تنازعے کی رپورٹنگ میں یہ واضح کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ یمن کی جنگ دراصل ایک ’بیرونی جنگ‘ ہے، جس میں پاکستان کا حصہ بننا سکیورٹی کے حوالے سے پہلے ہی ایک کمزور ملک کو مزید کمزور بنا سکتا ہے۔

کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف جاری کارروائی اور بھارت کے ساتھ سرحد پر فوجی کی تعیناتی کے بعد پاکستان کے پاس ایسے وسائل نہیں ہیں کہ وہ یمن میں اپنی فوج روانہ کر دے۔ پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار رفعت حسین کا کہنا ہے، ’’نواز شریف جانتے ہیں کہ پاکستان اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ ملکی فوجیوں کو یمن روانہ کیا جا سکے۔‘‘

دوسری طرف دفاعی تجزیہ نگار طلعت مسعود کے بقول اس خاص صورتحال میں پاکستانی حکومت ریاض کو سیدھے انداز میں انکار نہیں کر سکتی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ پاکستانی فوج ستر، اسی اور نوے کی دہائیوں میں سعودی عرب کی حفاظت کے لیے متعدد مرتبہ اپنی خدمات سر انجام دے چکی ہے۔ سیکورٹی ایکسپرٹ عائشہ صدیقہ اس تناظر میں کہتی ہیں کہ ماضی میں ایسا کوئی وقت نہیں تھا، جب سعودی عرب نے پاکستان فوج طلب کی ہو اور حکومت پاکستان نے انکار کر دیا ہو۔