یمن میں ایک بار پھر مشکلات اور تنازعات
2 ستمبر 2014مظاہرین نے پارلیمان کو جانے والے راستے بھی بند کر دیے۔ یمن میں ہزارہا شیعہ حوثی باغیوں کی جانب سے کیے جانے والے مظاہروں کا مقصد وزیر اعظم محمد باسندوہ کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنا ہے، جن کی قومی وحدت کی حکومت میں حوثیوں کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔
اگرچہ یہ مظاہرے پٹرول کی قیمتوں میں ایک تازہ اضافے کے نتیجے میں شروع ہوئے ہیں تاہم مظاہرین کا اصل مطالبہ اقتدار میں شرکت ہے۔ جرمن ادارے فریڈرش ایبرٹ فاؤنڈیشن کی یمنی دارالحکومت صنعاء میں قائم شاخ کی سربراہ آریئیلا گروس کے مطابق ’حوثی اپنے لیے کسی الگ مملکت کا مطالبہ نہیں کر رہے بلکہ وہ خود کو ایک سیاسی قوت کے طور پر مستحکم کرتے ہوئے حکومت میں نمائندگی چاہتے ہیں‘۔
حوثی رہنما عبدالمالک الحوثی نے اتوار کی شام ان مظاہروں کی اپیل کی تھی اور دھمکی دی تھی کہ مطالبات نہ مانے جانے کی صورت میں یہ مظاہرے مزید شدت اختیار کر جائیں گے۔ اس سے پہلے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے باغیوں پر زور دیا تھا کہ وہ صنعاء کے اندر اور اردگرد قائم اپنے کیمپ اور سڑکوں کی ناکہ بندی ختم کر دیں ورنہ اُن کے خلاف پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
یمن کی آبادی میں اکثریت سنّیوں کی ہے جبکہ شیعہ حوثی باشندے یمن کی مجموعی آبادی کا ایک تہائی بنتے ہیں۔ حوثی ایک سیاسی گروپ ہیں، جو خود کو 2004ء میں انتقال کر جانے والے اپنے رہنما حسین بدرالدین الحوثی سے موسوم کرتے ہیں۔
حوثی باغیوں کی طرف سے طاقت کے یہ تازہ مظاہرے ایک ایسے وقت پر سامنے آ رہے ہیں جب یمن شدید اقتصادی مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور زیادہ تر شہری بیروزگار ہیں۔ نوجوانوں میں تو بیروزگاری کی شرح تقریباً ساٹھ فیصد تک پہنچی ہوئی ہے۔
یمن کے تنازعے سے ہمسایہ ممالک بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایران حوثیوں کے ذریعے یمن میں اور یوں خلیجی عرب ممالک میں قدم جمانا چاہتا ہے۔ شام کے تنازعے میں شیعہ اور سنّی مسلمانوں کے درمیان دشمنی پوری شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔ ایران اور سعودی عرب خطّے میں اپنے اپنے اثر و رسوخ والے علاقوں کو پھیلانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
سعودی عرب اپنے ہمسایہ ملک یمن میں حوثیوں کے تازہ مظاہروں کو تشویش کی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ سعودی حکومت کو خدشہ ہے کہ اُس کے شیعہ شہری یمن میں اپنے ہم مسلک مسلمانوں کے ساتھ یک جہتی کے لیے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب یمن میں جاری سیاسی عمل کے نتیجے میں سامنے آنے والی ممکنہ سیاسی اور مذہبی تبدیلیوں سے بھی خوفزدہ ہے۔ آریئیلا گروس کہتی ہیں کہ ’تمام تر غلطیوں کے باوجود یمن ایک ری پبلک ہے اور وہاں جمہوریت رائج ہے، جس کی باقی عرب جزیرہ نما میں کہیں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس ساری صورتِ حال کی وجہ سے سعودی عرب بد اعتمادی کا شکار ہے‘۔
یمن کو حوثی مظاہرین کے ساتھ ساتھ دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی وجہ سے بھی شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ دہشت گرد، ملک کی نازک اقتصادی صورتِ حال، بیروزگاری کی بلند شرح اور انتہائی ابتر اقتصادی ڈھانچے کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے نئے ارکان کو اپنے ساتھ ملا رہے ہیں۔ اسی طرح یہ خدشہ بھی ہے کہ القاعدہ یمن میں جاری سیاسی عمل میں بھی خلل ڈال سکتی ہے۔
یمن بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ معیشت انتہائی سست روی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے لیکن مسائل کے حل کی جانب قدم اٹھاتے ہوئے ابتدائی کوشش یہ کی جانی چاہیے کہ آبادی کے تمام گروپوں کو سیاسی عمل میں شریک کیا جائے۔