1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمن میں ایک بار پھر مشکلات اور تنازعات

Kersten Knipp / امجد علی2 ستمبر 2014

پیر یکم ستمبر کو ہزارہا شیعہ حوثی باغیوں نے یمن کے دارالحکومت صنعاء کی سڑکوں پر مظاہرہ کرتے ہوئے ٹریفک کے نظام کو مفلوج بنا کر رکھ دیا اور مطالبہ کیا کہ اُنہیں بھی ملک میں جاری سیاسی عمل میں شریک کیا جائے۔

https://p.dw.com/p/1D5N6
شیعہ حوثی باغیوں کی جانب سے یمنی دارالحکومت صنعاء میں اٹھارہ اگست کو بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہرے
شیعہ حوثی باغیوں کی جانب سے یمنی دارالحکومت صنعاء میں اٹھارہ اگست کو بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہرےتصویر: Reuters

مظاہرین نے پارلیمان کو جانے والے راستے بھی بند کر دیے۔ یمن میں ہزارہا شیعہ حوثی باغیوں کی جانب سے کیے جانے والے مظاہروں کا مقصد وزیر اعظم محمد باسندوہ کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنا ہے، جن کی قومی وحدت کی حکومت میں حوثیوں کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔

اگرچہ یہ مظاہرے پٹرول کی قیمتوں میں ایک تازہ اضافے کے نتیجے میں شروع ہوئے ہیں تاہم مظاہرین کا اصل مطالبہ اقتدار میں شرکت ہے۔ جرمن ادارے فریڈرش ایبرٹ فاؤنڈیشن کی یمنی دارالحکومت صنعاء میں قائم شاخ کی سربراہ آریئیلا گروس کے مطابق ’حوثی اپنے لیے کسی الگ مملکت کا مطالبہ نہیں کر رہے بلکہ وہ خود کو ایک سیاسی قوت کے طور پر مستحکم کرتے ہوئے حکومت میں نمائندگی چاہتے ہیں‘۔

حوثی شیعہ باغی اپنے مطالبات کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے
حوثی شیعہ باغی اپنے مطالبات کے حق میں نعرے لگاتے ہوئےتصویر: Reuters

حوثی رہنما عبدالمالک الحوثی نے اتوار کی شام ان مظاہروں کی اپیل کی تھی اور دھمکی دی تھی کہ مطالبات نہ مانے جانے کی صورت میں یہ مظاہرے مزید شدت اختیار کر جائیں گے۔ اس سے پہلے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے باغیوں پر زور دیا تھا کہ وہ صنعاء کے اندر اور اردگرد قائم اپنے کیمپ اور سڑکوں کی ناکہ بندی ختم کر دیں ورنہ اُن کے خلاف پابندیاں عائد کی جائیں گی۔

یمن کی آبادی میں اکثریت سنّیوں کی ہے جبکہ شیعہ حوثی باشندے یمن کی مجموعی آبادی کا ایک تہائی بنتے ہیں۔ حوثی ایک سیاسی گروپ ہیں، جو خود کو 2004ء میں انتقال کر جانے والے اپنے رہنما حسین بدرالدین الحوثی سے موسوم کرتے ہیں۔

حوثی باغیوں کی طرف سے طاقت کے یہ تازہ مظاہرے ایک ایسے وقت پر سامنے آ رہے ہیں جب یمن شدید اقتصادی مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور زیادہ تر شہری بیروزگار ہیں۔ نوجوانوں میں تو بیروزگاری کی شرح تقریباً ساٹھ فیصد تک پہنچی ہوئی ہے۔

یمن کے تنازعے سے ہمسایہ ممالک بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایران حوثیوں کے ذریعے یمن میں اور یوں خلیجی عرب ممالک میں قدم جمانا چاہتا ہے۔ شام کے تنازعے میں شیعہ اور سنّی مسلمانوں کے درمیان دشمنی پوری شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔ ایران اور سعودی عرب خطّے میں اپنے اپنے اثر و رسوخ والے علاقوں کو پھیلانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

یمن کو حوثی مظاہرین کے ساتھ ساتھ دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی وجہ سے بھی شدید دباؤ کا سامنا ہے
یمن کو حوثی مظاہرین کے ساتھ ساتھ دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی وجہ سے بھی شدید دباؤ کا سامنا ہےتصویر: AFP/Getty Images

سعودی عرب اپنے ہمسایہ ملک یمن میں حوثیوں کے تازہ مظاہروں کو تشویش کی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ سعودی حکومت کو خدشہ ہے کہ اُس کے شیعہ شہری یمن میں اپنے ہم مسلک مسلمانوں کے ساتھ یک جہتی کے لیے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب یمن میں جاری سیاسی عمل کے نتیجے میں سامنے آنے والی ممکنہ سیاسی اور مذہبی تبدیلیوں سے بھی خوفزدہ ہے۔ آریئیلا گروس کہتی ہیں کہ ’تمام تر غلطیوں کے باوجود یمن ایک ری پبلک ہے اور وہاں جمہوریت رائج ہے، جس کی باقی عرب جزیرہ نما میں کہیں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس ساری صورتِ حال کی وجہ سے سعودی عرب بد اعتمادی کا شکار ہے‘۔

یمن کو حوثی مظاہرین کے ساتھ ساتھ دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی وجہ سے بھی شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ دہشت گرد، ملک کی نازک اقتصادی صورتِ حال، بیروزگاری کی بلند شرح اور انتہائی ابتر اقتصادی ڈھانچے کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے نئے ارکان کو اپنے ساتھ ملا رہے ہیں۔ اسی طرح یہ خدشہ بھی ہے کہ القاعدہ یمن میں جاری سیاسی عمل میں بھی خلل ڈال سکتی ہے۔

یمن بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ معیشت انتہائی سست روی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے لیکن مسائل کے حل کی جانب قدم اٹھاتے ہوئے ابتدائی کوشش یہ کی جانی چاہیے کہ آبادی کے تمام گروپوں کو سیاسی عمل میں شریک کیا جائے۔