1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ہیپٹائیٹس بی کو مات دی جا سکتی ہے‘ ڈبلیو ایچ او

کشور مصطفیٰ12 مارچ 2015

عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے جمعرات کو کہا ہے کہ دنیا جگر پر حملہ کرنے والے ہیپٹائٹیس بی وائرس کا مقابلہ کر سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1EpRI
تصویر: Fotolia/alexskopje

ڈبلیو ایچ او کے HIV/AIDS کے شعبے کے سربراہ گوٹ فریڈ ہرن شال نے اس موقع پر کہا، ’وائرل ہیپٹائیٹس یقینی طور پر ایک وبا ہے، تاہم یہ بالکل خاموش رہتا ہے‘۔ جینیوا میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے اُن کا مزید کہنا تھا کہ " اگر تمام ممالک اس امر کویقینی بنائیں کہ تمام بچے اور اس بیماری کے پھیلاؤ کے ضمن میں خطرہ سمجھے جانے والے انسانوں کے گروپوں اور ایسے افراد جنہیں یہ وائرس لگ چُکا ہے کو مناسب علاج فراہم کیا جا رہا ہے تو دنیا بھر سے اس بیماری کا خاتمہ 10 تا 20 سال میں ہو سکتا ہے" ۔

ہیپٹائیٹس بی نو مولود بچوں میں اُن کی ماؤں سے منتقل ہو کر آتا ہے اس لیے یو این ایجنسی ایک عرصے سے اس امر پر زور دے رہی ہے کہ اب پیدا ہونے والے تمام بچوں کو پیدائش کے فوراً بعد ہی ہیپٹائیٹس بی کا ٹیکہ لگایا جانا چاہیے۔

ہیپٹائیٹس بی غیرمحفوظ یا عفونت زدہ انجکشن سے بھی پھیل سکتا ہے۔ ایسا اکثرطبی عمل یا دوا کے استعمال کے دوران ہوتا ہے۔ سب سے اہم امرغیر محفوظ جنسی ارتباط سے بچنا ہے۔ جنسی عمل کے ذریعے ہیپٹائیٹس بی کا پھیلاؤ بہت سے معاشروں میں عام ہے تاہم جن بچوں کو پیدائش کے فوراً بعد ہیپٹائیٹس بی کا ویکسین دے دیا جائے ان میں سے 90 فیصد زندگی بھر کے لیے اس مہلک وائرس کے حملے سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔

Hepatitis B Virus Viren
یہ وائرس انسانی جگر کو مہلک حد تک نقصان پہنچاتا ہےتصویر: Creative Commons/Wikipedia

عالمی ادارے کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں چلائی جانےوالی ہیپٹائیٹس بی کے خلاف ویکسین کی مہم کے باوجود دنیا میں 240 ملین افراد اب بھی ہیپٹائیٹس بی کے عارضے کے ساتھ زندہ ہیں۔

عالمی ادارے کے ماہر گوٹ فریڈ ہرن شال کے بقول ان تمام مریضوں کو علاج کی ضرورت ہے اور ان میں سے ایک تہائی کا یہ مرض کسی نا کسی مرحلے میں Cirrhosis اور کینسر یا سرطان جیسی جان لیوا بیماری کا سامنا ہوگا۔

ہیپٹائیٹس بی کے انفیکشن کی شرح سب سے زیادہ افریقہ اور ایشیا میں پائی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ افریقی ممالک ہیں جہاں 8 فیصد باشندے ہیپٹائیٹس بی کے وائرس کا شکار ہیں جبکہ ایسے یورپی اور شمالی امریکی باشندوں کی شرح محض 2 فیصد ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ڈبلیو ایچ او کے ’ گلوبل ہیپٹائیٹس پروگرام‘ کے ڈائریکٹر اسٹیفن ویکٹور کے بقول، دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ملک چین میں بچے کی پیدائش کے 24 گھنٹے کے اندر اندر ہیپٹائیٹس بی ویکسین کا مطلوبہ ڈوز ملنے کے بہت مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ چین نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اس طریقہ کار پر عملدرآمد کرتے ہوئے اپنے ہاں ہیپٹائیٹس بی کے مریضوں کی 8 فیصد شرح کو کم کرکہ اسے 1 فیصد تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں محض 50 فیصد نہ مولود بچوں کو ہیپٹائیٹس بی کے خلاف ویکسین ڈوز مل رہا ہے۔ اس میں بھی افریقی ملکوں، جہاں کا نظام صحت نہایت ناقص ہے اور خواتین دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں گھر میں بچے پیدا کرتی ہیں، میں ہیپٹائیٹس بی کے ویکسین کے پیدائشی ڈوزکی کم ترین شرح پائی جاتی ہے۔ ’ گلوبل ہیپٹائیٹس پروگرام‘ کے ڈائریکٹر اسٹیفن ویکٹور نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،" ہمیں ’ گلوبل ہیپٹائیٹس بی کے پیدائشی ڈوز کی فراہمی میں وسعت اور تیزی لانا ہوگی" ۔