1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہپناٹزم سے سگریٹ نوشی سے ’چھٹکارا‘

عاطف توقیر7 جنوری 2015

سگریٹ نوشی سے چھٹکارے کا عزم ہر سال کے آغاز پر بے شمار لوگوں کے دس بنیادی عزائم میں سے ایک ہوتا ہے۔ ہپناٹزم یا تنویمیت کے ذریعے اس سلسلے میں مدد مل سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1EG2A
تصویر: Fotolia/nikkytok

تمباکونوشی کرنے والے ہر شخص کو معلوم ہے کہ سگریٹ پینے سے سرطان اور دل کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں، تاہم ادراک کے باوجود سگریٹ سے چھٹکارا حاصل کرنا نہایت مشکل عمل ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں تنویمیت کے ذریعے دماغ کو سگریٹ پینے کی سوچ سے دور کرنا، متعدد افراد کے لیے نہایت مفید دیکھا گیا ہے۔

جرمنی میں سن 2006ء سے ہپناٹزم کو سائیکوتھراپی یا نفسیاتی علاج کا ایک طریقہ تسلیم کیا جا چکا ہے، تاہم آج بھی اس طریقے کو عام معاشرے میں مکمل طور پر اعتبار حاصل نہیں۔ اعتبار نہ ملنےکی ایک وجہ اس علاج اور میڈیا پر علم تنویمیت کے ماہر افراد کے کرتب ہیں، جہاں کسی شخص کے ذہن پر قبضہ کر کے اسے آدھ درجن انڈے کھلا دیے جاتے ہیں اور ہوش میں واپس آنے پر اسے یاد کچھ نہیں ہوتا۔

بون شہر میں ماہر علم تنویم نوربرٹ شِک کے مطابق، ’اسٹیج پر تنویمیت کے عمل میں کسی شخص کو اس حالت میں لے جایا جاتا ہے، جہاں اس کی سوچنے سمجھے کی تمام تر صلاحیتیں مفلوج ہو جاتی ہیں، تاہم بالغ افراد کی مجموعی تعداد کے ایک تہائی سے بھی کم کو اس حالت تک لے جایا جا سکتا ہے۔ یہ حالت مکمل بلیک آؤٹ کی ہوتی ہے۔‘

شِک گزشتہ بیس برسوں سے خوف اور عادات سے جان چھڑانے کے خواہش مند افراد کو اس علاج کے ذریعے مدد فراہم کر رہے ہیں۔

24.04.2013 DW FIT UND GESUND Hypnose
اس طریقہء علاج سے بے شمار افراد فائدہ اٹھا چکے ہیں

شعور سے لاشعور کا ناتا

بلیک آؤٹ کے برعکس تمباکو نوشی کے عادی کسی شخص کو اس عمل کے دوران مکمل طور پر ادراک ہوتا ہے کہ اس کے اردگرد کیا ہو رہا ہے۔ شِک کے مطابق، ’’یہ ایک فطری حالت ہے، جس کا مظاہرہ ہم روزمرہ کی زندگی میں کرتے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہے کہ جیسے کوئی انتہائی دلچسپ کتاب یا فلم دیکھی جا رہی ہو، آپ اس وقت نیند کی طرح کی ایک حالت میں ہوتے ہیں۔‘

دماغ کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی غیرحقیقی فلم دیکھ رہا ہے، جس میں اداکار مختلف کردار نبھا رہے ہیں، مگر اس کے باوجود وہ غیریقینیت بھلا کر تاریک فلم ہال میں اس فلم کی کہانی کو حقیقت کے ساتھ جوڑ کر اُس سے لطف اندوز ہوتا ہے:’’ایسی حالت میں، ماہر علم تنویمیت آپ کے دماغ سے رابطہ کرتا ہے۔ آپ ہنستے ہیں، آپ روتے ہیں، آپ کے احساسات جاگ اٹھتے ہیں اور آپ کا لاشعور بیدار ہو جاتا ہے۔‘‘

جہاں چاہ وہاں راہ

کولون شہر میں بسنے والے وکیل 58 سالہ یوخین گیرہارڈ گزشتہ چالیس برس سے تمباکو نوشی کی لت کا شکار رہے، تاہم دو برس قبل انہوں نے اس عادت سے جان چھڑا لی۔ دل کے بائی پاس آپریشن اور کئی شریانیں بند ہو جانے کے باوجود بھی وہ تمباکونوشی سے جان نہیں چھڑا پائے تھے، پھر ان کے ڈاکٹر نے انہیں ایک حقیقت پسندانہ تنبیہ کر دی، ’سگریٹ چھوڑ دو ورنہ دل کے دورے سے مر جاؤ گے۔‘

Symbolbild Europäische Richtlinien Zigarettenpackung Tabaklobby
سگریٹ پینے والے یہ جاننے کے باوجود کہ تمباکونوشی ان کی صحت کے لیے مضر ہے، اس عادت سے جان چھڑانے میں مشکلات کا شکار رہتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

اسی سلسلے میں ڈاکٹر نے انہیں ایک مقامی ہپنوتھیراپسٹ کے پاس بھیج دیا۔ گیرہارڈ کہتے ہیں، ’اس وقت، سگریٹ چھوڑنے کی میری چاہ بہت زیادہ تھی، سو میں نے سوچا کہ ایک کوشش ہی سہی۔‘

’اس عمل میں کھونے کو ڈیڑھ سو یورو اور ایک روز کے گروپ سیشن کے علاوہ تو کچھ تھا نہیں، سو کیوں نہیں۔‘

گیرہارڈ ابتدا میں اس طریقہ علاج کے خاصے نقاد تھے، خصوصاﹰ جب ہپنوتھراپسٹ نے کسی مبلغ کی طرح ایک وعظ شروع کر ڈالا، ’وہ چیخ رہا تھا اور مسلسل چیخ رہا تھا۔ تم اب سگریٹ پینا نہیں چاہتے۔ تم مضبوط ہو اور ہم اس کی آواز میں آواز ملا رہے تھے۔ ہاں ہم مضبوط ہیں، ہاں ہم ایسا ہی کریں گے۔‘

گیرہارڈ نے بتایا کہ اس گروپ میں نوجوان اور معمر ہر طرح کے مرد و زن موجود تھے، جہاں تمباکونوشی کرنے والے افراد نے میلے اور دھوئیں سے سیاہ ہو چکے پھیپھڑوں کی تصاویر دکھائی جا رہی تھیں، تمباکو کی وجہ سے گندے پیلے دانت دکھائے جا رہے تھے اور پھر اس کے بعد سب لوگ ہال سے باہر اپنا آخری سگریٹ پینے چلے گئے۔

’’جب ہم واپس آئے تو اس ہال میں بچھے باریک مگر نرم گدوں پر چت ہو گئے اور ہلکی موسیقی کانوں کو چھو کر آسودگی کا احساس دینے لگی۔ پھر برقی قمقمے بجھا دیے گئے اور موم بتیاں جلا دی گئیں، جن میں ہم تنویمیت کی حالت میں پہنچ گئے۔‘

انہوں نے مزید بتایا، ’مجھے لگ رہا تھا، جیسے بس کوئی فضول سا کام ہو رہا ہے۔ میں نے اپنے اِدھر اُدھر کے خیالات جھٹک کر ہپنوتھراپسٹ کی آواز پر کان لگا دیے، وہ بار بار وہی کچھ دہرا رہا تھا، جو وہ اس سے پہلے بھی کہہ چکا تھا، مگر اس بار اس کی آواز انتہائی نرم اور شائستہ تھی۔ پھر یہ عمل بھی ختم ہوا، بتیاں جلا دی گئیں اور میں نے باقی ماندہ سگریٹوں کی حامل ڈبیا کو دور پھینک دیا۔ اس کے بعد سے آج تک میں نے سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگایا۔‘